رسائی کے لنکس

سویڈن میں پناہ کے منتظر تنہا بچوں کا مستقبل غیر یقینی


برطانوی بارڈر فورس کے اہل کار سرپرست کے بغیر برطانیہ پہنچنے والے پچوں کے ایک گروپ کو امیگریشن جج کے پاس لے جارہے ہیں۔ اکتوبر 2016
برطانوی بارڈر فورس کے اہل کار سرپرست کے بغیر برطانیہ پہنچنے والے پچوں کے ایک گروپ کو امیگریشن جج کے پاس لے جارہے ہیں۔ اکتوبر 2016

یورپی کمشن کے مطابق پچھلے دو سال کے دوران یورپی یونین میں پناہ حاصل کرنے کے لیے داخل ہونے والوں میں 30 فی صد بچے تھے۔ سن 2015 میں یورپی یونین میں پناہ کے لیے درخواست دینے والوں میں 96 ہزار سے زیادہ ایسے بچے تھے جن کے ساتھ کوئی سرپرست نہیں تھا۔

أفغانستان سے تعلق رکھنے والی ذولفیا اکبری کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے اور وہ سویڈن میں پناہ سے متعلق درخواست پر اپنے انٹرویو کا انتظار کررہی ہے جو یہ تعین کرے گا کہ آیا وہ سویڈن میں رہ سکتی ہیں یا ا نہیں اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔

17 سالہ أفغان پناہ گزین اکبری سن 2015 میں تنہا سویڈن پہنچی تھیں اور اب وہاں ان سینکڑوں بچوں کے ساتھ رہی ہیں جن کے ساتھ کوئی بالغ فرد نہیں ہے۔

اپنے ملک أفغانستان میں اکبری کو شديد دکھوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سن 2015 میں اس کے والدین اور دو بھائی اس وقت ہلاک ہو گئے جب طالبان نے قندوز پر حملہ کرکے محدود مدت کے لیے شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس کے کچھ ہی عرصے بعد اکبری کے چچا نے انسانی اسمگلروں کو کئی ہزار ڈالر دیے کہ وہ اسے یورپ پہنچا دیں ۔

اکبری نے سویڈن کے ایک پناہ گزین کیمپ سے ریڈیو فری یورپ کی ویب سائٹ گندھارا کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ان خطرات کا ذکر کیا جو انہیں یورپ کی جانب سفر کے دوران پیش آئے۔

اکبری کا کہنا تھا کہ ہم صوبہ نیم روز سے ایران گئے اور پھر اس کے بعد ترکی سے یونان پہنچے۔ ہم تقریباً 200 لوگ تھے ۔ اسمگلر بہت خطرناک قسم کے افراد تھے۔ بعض دفعہ سفر کے دوران وہ عورتوں اور مردوں کو الگ الگ کر دیتے تھے۔ ہمیں جنسی زیادتی کا نشانہ بننے، قتل یا فروخت کیے جانے کا سو فی صد خطرہ تھا۔

سن 2015 میں، جس سال اکبری سویڈن پہنچی تھیں، أفغانستان سے تعلق رکھنے والے 23 ہزار سے تنہا بچوں اور بالغ افراد نے پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔

لیکن ایک سال کے بعد سویڈن کے تارکین وطن سے متعلق ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد کہیں کم تھی اور 2100 سے زیادہ لوگوں کو پناہ دی گئی تھی جب کہ 6 سو سے زیادہ افراد کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔

اکبری کا گروپ ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں اور غریب سے بھاگ کر پناہ کی خاطر یورپ میں داخل ہونے والی ایک بڑی لہر کا حصہ تھا۔

یورپی کمشن کے مطابق پچھلے دو سال کے دوران یورپی یونین میں پناہ حاصل کرنے کے لیے داخل ہونے والوں میں 30 فی صد بچے تھے۔ سن 2015 میں یورپی یونین میں پناہ کے لیے درخواست دینے والوں میں 96 ہزار سے زیادہ ایسے بچے تھے جن کے ساتھ کوئی سرپرست نہیں تھا۔ جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد گھٹ کر 56 ہزار رہ گئی۔

سویڈن کے محکمہ انصاف اور تارکین وطن کے وزیر مورگن جو ہنسن نے اپنے ایک انٹرویو میں ریڈیو فری یورپ کو بتایا کہ ہر درخواست کا جائزہ انفرادی حیثیت میں لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر درخواست گذار کو انفرادی طور پر یہ شواہد پیش کرنا ہوں گے کہ اسے اس ملک میں پناہ لینے کی ضرورت کیو ں ہے۔

کسی سرپرست کے بغیر آنے والے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں جوہنسن کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بچوں کو یہ تعین کرنے کے بعد کہ آیا وہ پناہ گزین یا تحفظ حاصل کرنے کے معیار پر پورا اترتے ہیں، عارضی طور پر سویڈن میں رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

اور اگر تین سال کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ انہیں پناہ یا تحفظ کی بدستور ضرورت ہے تو انہیں مزید رہنے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ لیکن اگر اس کی ضرورت نہ ہوئی تو انہیں اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔

احمد ذکی خان سویڈن میں أفغان ایسوسی ایشن کی تارکین وطن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے گندھارا کو بتایا کہ زیادہ تر درخواست گذاروں کے لیے، خاص طور پر افغانوں کے لیے اپنی شناخت کی مناسب دستاویزات کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکام انٹرویو میں تصدیق کو زیادہ اہمیت دیں گے اور اگر وہ اپنی شناخت کے کاغذات مہیا کرنے میں ناکام رہے تو اس کا جواب انکار کی صورت میں نکلے گا۔

اکبری کا کہنا ہے کہ اس کے پاس کوئی پاسپورٹ یا قومی شناختی کارڈ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس تذکرہ یا أفغان کی شناخت کا کارڈ تو ہے لیکن پاسپورٹ نہیں ہے۔ جب اسمگلر ہمیں یورپ لا رہے تھے تو انہوں نے میرا بیگ چھین کر پانی میں پھینک دیا تھا۔ میں خود کو بچاتی یا اپنے بیگ کو۔

اب اکبری کو واپس أفغانستان بھیجے جانے کا ڈر ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اکیلی لڑکی کے لیے أفغانستان محفوظ جگہ نہیں ہے۔

انہوں نے گندھارا ویب سائٹ کو بتایا کہ میں اپنے انٹرویو کا انتظار کر رہی ہوں ۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ آیا میری درخواست منظور کر لی جائے گی یا وہ مجھے واپس بھیج دیں گے۔ مجھے وہاں عدم تحفظ کا خوف ہے ۔ مجھے وہاں جنسی زیادتی زیادتیوں کا ڈر ہے۔ یہ چیزیں مجھے بہت زیادہ ڈراتی رہتی ہیں ۔

XS
SM
MD
LG