امریکہ کی زیر قیادت اتحادیوں اور شام کی حکومت کی مدد کے لیے آنے والے روسی لڑاکا طیاروں کی بمباری کے باعث شدت پسند گروپ داعش کو اپنے زیر قبضہ علاقے رقہ پر تسلط برقرار رکھنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنا پڑی رہی ہے۔
یہ اطلاعات مقامی سرگرم کارکنوں اور ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں میں سامنے آئی ہیں۔
تقریباً چار لاکھ آبادی والا شام کا یہ شمال مشرقی شہر اسٹریٹیجک اعتبار سے خاصا اہم ہے اور گزشتہ سال مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے اسے اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا۔
داعش نے رقہ کی گلیوں میں اپنا گشت بڑھا دیا ہے اور ایک نیا قانون بنایا ہے جس کے تحت تمام مردوں اور 14 سال سے زائد عمر کے لڑکوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خود کو "اسلامی پولیس" میں خدمات کے لیے رجسٹر کروائیں۔
گزشتہ سال جنوری میں اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد داعش نے یہاں لوگوں کو خوراک، پانی اور بجلی فراہم کرنا شروع کی تھی تاکہ وہ مقامی آبادی کی حمایت حاصل کر سکے لیکن اب یہ کوششیں ناکام ہو تی جا رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اب یہاں دن میں صرف چند گھنٹوں کے لیے ہی پانی اور بجلی دستیاب ہوتا ہے جب کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری ہونے والی تصاویر میں اس شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔
تقریباً چار ہفتے قبل شام میں اپنی فضائی کارروائیاں شروع کرنے کے بعد اب اطلاعات کے مطابق روس نے شامی حزب مخالف کی بجائے رقہ میں داعش کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔
ایک سرگرم شامی کارکن مصطفیٰ عبدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں روسی فضائیہ نے رقہ میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
فضائی کارروائیوں سے شہر کی اقتصادی صورتحال خاصی متاثر ہوئی ہے اور اکثر شہری یہاں سے نقل مکانی کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ شدت پسند گروپ کے لیے کام کرنے والے بھی اب اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
عبدی نے بتایا کہ "ان (داعش) کے ارکان اب گروپ سے خوش نہیں ہیں۔ وہ (داعش) اپنے ارکان کو پہلے چار سو ڈالر ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے لیکن اب صرف وہ پچاس ڈالر دیتے ہیں۔
عبدی سرحدی شہر کوبانی میں مقیم ہیں اور وہاں سے رقہ میں داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔
داعش نےعراق اور شام کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت کا قائم کر رکھی ہے اور اس نے اپنا دائرہ اثر دیگر علاقوں تک پھیلانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
حالیہ مہینوں میں مختلف ملکوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی ذمہ داری بھی اس گروپ نے تسلیم کی ہے۔