ایسے میں جب داعش کے لڑاکے شمالی شام کے حکمتِ عملی کے حامل کلیدی شہر میں ترکی کی حمایت یافتہ فوجوں کے خلاف حتمی معرکے کے لیے آمنے سامنے ہیں، یوں لگتا ہے کہ دولت ِاسلامیہ کے پاس اب کم ہی موقع باقی رہ گیا ہے کہ وہ یہاں پسپائی اختیار کرے۔
جمعرات کی صبح تک، داعش کے باقی ماندہ لڑاکوں کے خلاف شدید لڑائی کے بعد داعش مخالف افواج کو الباب کے قصبے کے شمالی حصے پر کنٹرول حاصل ہو چکا تھا۔ مقامی اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ یہ لڑائی قصبے کے وسطی علاقے میں بھی جاری ہے۔
ابو ایاد کے مطابق، الباب میں داعش کے تقریباً 1000 لڑاکے موجود تھے، جب کہ 800 دیگر لڑاکے مضافاتی علاقے میں موجود تھے۔ ابو ایاد ایک باغی لڑاکا ہیں، جن کا تعلق ترکی کی پشت پناہی میں کی جانے والی کارروائی سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’’زیادہ تر لڑاکے غیر ملکی ہیں، اور عین ممکن ہے کہ وہ الباب میں لڑتے لڑتے جان دے دیں‘‘۔
الباب کے مختلف گرد و نواح میں بَری فوجوں نے داعش کو کافی جانی نقصان پہنچایا ہے، جس میں جنوبی محاذ شامل ہے، جہاں شامی فوجیں مستعدی دکھا رہی ہیں، جو قصبے سے بمشکل تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
الباب کی جانب ہونے والی یہ پیش قدمی ترک افواج اور شامی باغیوں کی حمایت میں کی جانے والی امریکی فضائی کارروائی کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔
احد ہندی، واشنگٹن میں شامی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’داعش کے لڑاکے الباب اور اِس کے مضافات میں سخت جان ہو کر لڑ رہے ہیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے بتایا کہ داعش کو پتا ہے کہ ’’آخر کار، اُسے منہ کی کھانی پڑے گی، اس لیے، وہ آخری دم تک مقابلہ کریں گے‘‘۔
بدھ کی صبح کی سنگین جھڑپوں کے دوران، داعش نے ترکی کے کم از کم 10 فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔