اقوام متحدہ نے خواتین پر سخت پابندیوں کے سبب پیر کے روز دو افغان عہدیداروں کے ملک سے باہر سفر پر پابندی عائد کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ اقدام ایسے وقت میں لیا گیا ہے جب 15 طالبان کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں ملک سے باہر جانے کے لیے استثنیٰ کی مدت پیر کو ختم ہو رہی تھی۔
13 عہدیداروں کے لیے اس مدت میں دو ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے لیکن طالبان کی طرف سے خواتین کے ثانوی یا کالج کی سطح کی تعلیم پر پابندی کی وجہ سے دو عہدیداروں کا نام سفر کے لیے استنثی والی فہرست سے نکال دیا گیا۔
ایک سفارت کار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جن عہدیداروں کے سفر پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں تعلیم کے نائب وزیر سید احمد شیدخیل اور ہائر ایجوکیشن کے وزیر باقی بصیر اول شاہ شامل ہیں جنہیں عبدالباقی حقانی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے.
گزشتہ سال اگست میں کابل پر کنٹرول کے بعد طالبان نے گزشتہ 20 برسوں کے دوران خواتین نے جو معمولی کامیابیاں حاصل کی گئی تھی، ان کو لپیٹ دیا اور ان کی تعلیم ، سرکاری نوکریوں تک رسائی اور نقل و حرکت کی آزادی محدود کر دی تھی۔
مارچ میں سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے خواتین کے لیے کالج کی تعلیم بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم اس کے چند گھنٹے بعد آیا تھا جب طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد پہلی مرتبہ لڑکیوں کے کالج کھولے گئے تھے۔
اس حکمنامے پر جس کے تحت ہزاروں لڑکیوں کو ثانوی تعلیم کے سکول جانے سے روک دیا گیا تھا، دنیا بھر سے سخت تنقید سامنے آئی تھی۔
طالبان کا ردعمل:
طالبان انتظامیہ کے تعلیم کے ایک چوٹی کے عہدیدار نے اقوام متحدہ کی طرف سے سفری پابندیوں کے اس فیصلے کو غیر مخلصانہ اور ناانصافی قرار دیا ہے۔
ہائر ایجوکیشن کے نائب وزیر لطف اللہ خیرخوا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے فیصلے حالات کو مزید خراب کریں گے۔