امریکہ نے 95 سالہ جرمن شخص جاکیو پالیج کو جرمنی ڈی پورٹ کر دیا ہے۔ پالیج دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے دوران نازی حراستی کیمپ کا گارڈ تھا اور اُس نے اس کردار میں قیدیوں پر نازیوں کے ظلم و ستم میں مدد کی تھی۔
پالیج 1949 میں امریکہ چلا آیا اور اُس وقت سے نیو یارک کے علاقے کوئنز میں رہائش پزیر تھا۔ وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ اسے آج منگل کے روز جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ جرمنی میں اُس کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔
وائٹ ہاؤس نے آج جاری ہونے والے بیان میں کہا کہ پالیج کو ڈی پورٹ کرنے کے اقدام کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ امریکہ اُن افراد کو برداشت نہیں کرے گا جنہوں نے کسی بھی اعتبار سے نازی جرائم میں اُن کا ساتھ دیا تھا اور ایسے افراد کیلئے امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
پالیج نے 1957 میں دھوکے سے امریکی شہریت حاصل کر لی تھی۔ تاہم 2001 میں اُس نے محکمہ انصاف کے تحقیقات کاروں کے سامنے یہ اعتراف کیا تھا کہ اُس نے جرمن مقبوضہ پولینڈ میں نازیوں کے جبری مزدوروں کے ایک کیمپ میں محافظ کے طور پر کام کیا تھا۔ اُس کی فراڈ کے ذریعے حاصل کی گئی امریکی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی اور 2004 میں ایک امیگریشن جج نے اسے دی پورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔
پالیج نے دوسری عالمی جنگ کے دوران باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے بعد جبری مزدوروں کے ٹرانیکی کیمپ میں کام کرتے ہوئے قیدیوں کے فرار کی کوشش کو ناکام بنانے میں مدد کی تھی اور اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ قیدی نازیوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچیں۔ اس کیمپ میں 1943 میں نازی فوجیوں نے ایک ہی روز 6,000 یہودی قیدیوں کو قتل کر دیا تھا۔
امریکہ نے ماضی میں جرمنی اور چند دیگر ملکوں سے کہا تھا کہ وہ پالیج کو قبول کر لیں تاہم اُنہوں نے اس سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم گزشتہ برس نیو یارک سے ایوان نمائیندگان نے اسے دی پورٹ کرنے کی مہم جاری رکھی اور وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کیس سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹنے کا وعدہ کیا تھا اور صدر ٹرمپ مسلسل مزاکرات کے ذریعے جرمنی کو اسے قبول کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔