امریکی خبر رساں ایجنسی 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے خبر دی ہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب میں مناسک حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے مرنے والوں کی تعداد 2177 ہو گئی ہے۔
ایجنسی نے یہ اعداد و شمار اپنے ذرائع اور ان ملکوں کی فراہم کردہ معلومات کے بعد بتائے ہیں جن کے شہری 24 ستمبر کو مکہ کے قریب منا میں 'رمی جمرات' یعنی "شیطان کو کنکریاں" مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سے ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن سعودی عرب کی طرف سے آخری بار 26 ستمبر کو بتائی گئی تعداد میں سرکاری طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
سعودی عرب کے حکام کے مطابق منی بھگدڑ میں 769 حجاج ہلاک اور 934 زخمی ہوئے تھے۔
سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے اس واقعے کے بعد مکمل تحقیقات کا حکم دیا تھا جو تاحال جاری ہے۔
اتوار کو دیر گئے وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف نے اعلیٰ عہدیداروں کے ہمراہ ایک اجلاس میں شرکت کی جس میں اس تحقیقات سے متعلق امور زیر بحث آئے۔ تاہم سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اس کی تفصیل جاری نہیں کی۔
ایران کا الزام ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر سعودی عرب کی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر حج کے ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا۔ تہران حج کے انتظامات مختلف ملکوں کے عہدیداروں پر مشتمل ایک خودمختار شعبے کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔
اس واقعے میں ایران کے سب سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے جن کی تعداد چار سو سے زائد بتائی گئی ہے جب کہ پاکستان کے مرنے والے حاجیوں کی تعداد ایک سو تک پہنچ چکی ہے۔
دیگر کئی ملکوں کے حجاج بھی مرنے والوں میں شامل ہیں۔ اس سال حج کے لیے دنیا بھر سے تقریباً بیس لاکھ سے زائد مسلمان سعودی عرب گئے تھے۔
ایران بغیر کسی ثبوت کے منیٰ بھگدڑ میں مرنے والوں کی تعداد 4700 تک بتاتا ہے۔
اگر غیر سرکاری اعدادوشمار کو درست تصور کر لیا جائے تو حج کے موقع پر پیش آنے والا یہ تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ ہے۔ اس سے قبل 1990ء میں منیٰ ہی میں ایسے ہی واقعے میں 1400 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔