اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعے کے روز متفقہ طور پر ایک مشترکہ تفتیشی طریقہٴکار وضع کرنے پر اتفاق کیا، جو شام میں کلورین اور دیگر زہریلے کیمیائی حملے کرنے والوں کو شناخت کرے گا۔
کونسل نے شام میں ہونے والے حملوں کے بارے میں پہلی بار احتساب کا نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سنہ 2013میں دنیا کو اُس وقت انتہائی صدمہ پہنچا جب دمشق کے مضافات میں واقع غوطہ کے علاقے میں اُس علاقے پر سارین گیس کے حملے ہوئے جن پر مخالفین کا کنٹرول ہے، جن واقعات میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے۔
صدر بشارالاسد نے اِن حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ تاہم، شام نے روس اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے اس سمجھوتے کو تسلیم سے انکار کیا، جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کی تفصیل بیان کرنے اور بین الاقوامی جائزہ کاروں کو اُنھیں ہٹانے اور تلف کرنے کی اجازت دینے کے لیے کہا گیا تھا۔
تاہم، فروری میں اُن کو تلف کیے جانے کی تصدیق کے باوجود، کیمیائی ہتھیاروں پر ممانعت سے متعلق تنظیم نے کہا ہے کہ اُس کے جائزہ کار انتہائی پُراعتماد ہیں کہ زہریلی کیمیائی کلورین کا بارہا استعمال کیا گیا ہے، جب کہ اسے باقاعدہ ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔
لڑاکا طیاروں سے گرائے جانے والے بیرل بموں میں کلورین کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ شام کی اپوزیشن کے پاس جہاز یا ہیلی کاپٹر نہیں ہیں، جو صرف حکومت ہی کے پاس ہیں۔ حکومت نے اِن حملوں کی بارہا مسترد کیا ہے۔ جمعے کے روز، اقوام متحدہ میں شام کے ایلچی نے سلامتی کونسل میں اس تردید کو دہرایا اور حکومت کے طیاروں کے ذریعے کیے گئے حملوں سے متعلق پیش کردہ شہادت کو ’من گھڑت‘ قرار دیا۔
یہ قرارداد پیش کرنے کے لیے، کئی مہینوں سے امریکہ سلامتی کونسل پر زور دیتا رہا ہے، جس کا مقصد ایسے حملے کرنے والوں کا احتساب کرنا ہے۔
امریکی سفیر، سمنتھا پاور نے کہا ہے کہ نئے طریقہٴکار کی مدد سے ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ’اب بین الاقوامی برادری کے پاس ایسا طریقہ کار دستیاب ہے، جس کی مدد سے ایسے مظالم کرنے والوں کی شناخت کی جاسکتی ہے، اور ہم ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔‘
نئی قرارداد میں اقوام متحدہ اور ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال پر نظر رکھنے والی تنظیم پر مشتمل طریقہ کار وضع کیا جائے گا جو اس بات کا تعین کرے گا آیا شام نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اب تک، تنظیم کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے، لیکن وہ ذمہ دار کی شناخت کا کام نہیں کیا کرتی تھی۔