ایران کے شہر اصفہان میں دھماکوں کی اطلاعات
ایران کے شہر اصفہان میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔
ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی 'فارس نیوز' نے اصفہان شہر میں دھماکوں کی اطلاع دی ہے۔ تاہم تہران حکومت نے فوری طور پر دھماکوں کی اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
فارس نیوز کی رپورٹ کے مطابق دھماکوں کی اطلاعات کے بعد ایرانی فوج نے ایئر ڈیفنس سسٹم کو فعال کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اصفہان شہر ایران کے دارالحکومت تہران سے تقریباً 350 کلومیٹر (215 میل) جنوب میں ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایران کے یورینیم افزودگی پروگرام کے مرکز 'نطنز' سمیت کئی ایرانی جوہری مقامات اصفہان شہر میں واقع ہیں۔
ایران کو اپنا حملہ 10کروڑ میں، اسرائیل کو دفاع تقریباً ایک ارب ڈالر میں پڑا: ماہرین
اگرچہ اسرائیل نے یہ نہیں بتایا کہ ایران کے ڈرونز اور میزائل گرانے پر اٹھنے والے اخراجات کتنے تھے، لیکن متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران نے اپنے حملے میں آٹھ سے دس کروڑ ڈالر مالیت کے ڈرونز اور میزائل استعمال کیے تھے جبکہ انہیں مار گرانے پر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے اخراجات کا تخمینہ ایک ارب ڈالر تک جا پہنچتا ہے۔
اگر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو ایران کے حالیہ ڈرونز اور میزائل حملے کے خلاف جوابی کارروائی نہ کرنے کے عالمی دباؤ کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ماہرین کے مطابق یہ ایران کے پرانے اور فرسودہ طیاروں اور ہتھیاروں سے لیس فضائیہ کے لیے ایک کڑا امتحان ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی فضائیہ کی قوت اور حربی صلاحیت کے پیش نظر اسرائیل کو ایران کے اندر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے بہت کم دشواری کا سامنا ہو گا جس کے پاس فرسودہ طیارے اور اپنا تیار کردہ دفاعی نظام ہے جو زیادہ تر روسی ماڈلز پر مبنی ہے۔
ایران نے حال ہی میں اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے جو حملہ کیا تھا، اس میں تہران نے یہ خیال رکھا تھا کہ اس کے میزائلوں اور ڈرونز سے کم سے کم نقصان ہو۔
اسرائیل کے ایک سابق فضائی دفاع کے سربراہ زویکا ہیمووچ کا کہنا ہے کہ ایران ٹیکٹیکل بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز کے شعبے میں ایک بڑی قوت کی حیثیت رکھتا ہے۔
پچاس ممالک کی اسرائیل پر ایرانی حملے کی مذمت، کشیدگی میں کمی کا مطالبہ
تقریباً 50 ملکوں نے بدھ کی رات ایک بیان جاری کیا جس میں اسرائیل پر ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کی مذمت اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی دور کرنے کی کوششوں پر سفارتی تعاون کا عہد کرتے ہوئے خطے کے فریقوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کے لیے کام کریں۔
یہ بیان، اسرائیل،امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا، فرانس،جرمنی، جاپان، یونان، اٹلی، اسپین،سویڈن، ہنگری، پولینڈ،نیدر لینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا، یوکرین، آسٹریا، بیلجیم، ارجنٹائن اور قبرص، سمیت پچاس ملکوں کے اقوام متحدہ میں مستقل نمائندوں کی جانب سے آیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ “ہم نوٹ کرتے ہیں کہ ایران کا اشتعال انگیز حملہ ایران اور اس کے عسکریت پسند شراکت داروں کے خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والے اقدامات کا ایک تازہ ترین نمونہ ہے، جس سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہوتا ہے۔”
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو کہا کہ، اسرائیل اپنے طور پر فیصلہ کرے گا کہ ایران کے اختتام ہفتہ کیے گئے حملے کا جواب کیسے دیا جائے، اس کے باوجود کہ مغربی ممالک نے پورے مشرق وسطیٰ میں کسی جنگ کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے تحمل سے کام لینے کا کہاہے۔
امریکہ اور برطانیہ کا ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان
امریکہ نے اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد تہران کی ڈرونز پروڈکشن کو ہدف بناتے ہوئے اس کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ گروپ سیون کے رہنما تہران پر اقتصادی دباؤ بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
برطانیہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ واشنگٹن کے ساتھ مل کر وہ بھی ایران پر پابندیاں لگا رہا ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل پر 13 اپریل کو ایران کی جانب سے کیے گئے میزائل اور ڈرون حملے کو ناکام بنانے میں اس کی مدد کی تھی اور اب وہ تہران پر نئی پابندیوں اور برآمدات پرکنٹرول کے ساتھ اسے جوابدہ ٹھہرا رہے ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے ایران کے رویے کو“ناقابل قبول” قرار دیا۔
کیمرون نے اٹلی میں گروپ آف سیون (جی 7) کی بڑی مغربی طاقتوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر کہا “(یہ) اسرائیل کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہم ایران کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔”