امریکہ میں جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہاں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں بھی کمی آرہی ہے۔ جس کی وجہ ہے جنوبی ایشیائی تارکین وطن کی نئی نسل کی اس زبان میں عدم دلچسپی۔ انہیں اردو زبان وادب اورثقافت سے روشناس کرانے کے لیے ریاست ورجینیا میں ایک اردو انجمن کے نام سے ایک تنظیم کام کر رہی ہے۔
اردو کو لشکری زبان کہا جاتا ہے ۔ جس میں ہر دور میں نئے الفاظ اور نئی زبانوں کا رنگ شامل ہوتا رہا ہے ۔ پاکستان سے ہزاروں میل دور امریکہ آکر بسنے والے پاکستانیوں کی اپنی وطن سے محبت کا ایک طریقہ اپنی زبان کو امریکہ میں زندہ رکھنے کی کوشش کرنے کا ہے ۔
واشنگٹن کے قریبی علاقے برک ورجنیا کی ایک لائبریری میں ہر مہینے اردو سے محبت کرنے والوں کی ایک محفل منقعد ہوتی ہے ۔ اس انجمن کو قائم ہوئے اب دو سال ہوچکے ہیں اور گذشتہ دنوں اردو انجمن کے قیام کی دوسری سالگرہ منائی گئی ۔
سوسائٹی آف اردو لٹریچر کی بنیاد ابولحسن نغمی اور انکی اہلیہ یاسمین نغمی نے ریاست ورجینیا کے شہر برک کی ایک لائبریری میں رکھی تھی۔ جہاں اس کے اجلاس باقاعدگی سے منعقد کیے جارہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ امریکہ میں آکر بسنے والے پاکستانیوں کی نئی نسل اردو بول تو لیتی ہے لیکن انھیں اردو میں لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔
ابولحسن نغمی کہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہیں وہ مشاعروں سے دور بھاگتے ہیں ۔ انہیں اس پر حیرانی ہوتی ہے کہ مشاعروں میں یہ واہ واہ ، سبحان اللھ اور مقرر ارشاد کیا ہے۔ چنانچہ ہم نے سوچا کہ ایسا کونسا طریقہ اختیا کریں کہ ہمارے بچے نہ صرف اردو بولیں بلکے بائی لینگول بھی ہوں۔
یاسمین نغمی کہتی ہیں پہلے ہم نے اپنے بچوں کو آگے بڑھایا۔ رومن میں لکھ کر انھیں کہا کہ بولو۔ہمارے بچے گھر میں تو اردو بولتے ہیں لیکن لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ پھر ہم نے اور بچوں سے اس ادبی محفل میں آنے کے لیے کہا۔ اب ہر محفل میں دو بچے ایسے ضرور ہوتے ہیں جو نئے ہوتے ہیں۔
اس موقع پر مصنف اکمل علیمی کا کہنا تھا کہ کثیر تعداد میں تارکین وطن کی آمد نے امریکہ کو ایک ایسی مرکز بنا دیا ہے جس میں مختلف ملکوں،ثقافتوں اور زبانوں کے رنگ موجود ہیں ۔ اور پاکستانی بھی یہاں اپنا ثقافتی ورثہ بچا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محفلیں کثیر تعداد میں پاکستانیوں کی امریکہ آمد کا ثمر ہیں۔ یہ ثمر یقینا بار آور ثابت ہو گا کیونکہ اس کے ساتھ دانشور بھی بڑی تعداد میں آئے ہیں اور جب دانشور تارکین وطن کے ساتھ آتے ہیں تو ان کا ثقافتی تشخص محفوظ رہتا ہے۔
لیکن جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں رضاکارانہ طور پر اردو سکھانے والے معظم صدیقی کہتے ہیں کہ وہ امریکہ میں اردو کے مستقبل کو اتنا تابناک نہیں دیکھتے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک امریکہ میں اردو کے مستقبل کا تعلق ہے، امریکہ میں اس پر بہت کام ہوا ہے لیکن زیادہ تر کام مشاعروں کی حد تک رہا ہے۔ مشاعروں کا پنا ایک مقام ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن اردو کو دیر پا مدت تک قائم رکھنے کے لیے صرف مشاعرے کرنا کافی نہیں۔
لیکن کئی سال پہلے پاکستان سے آنے والے کئی تارکین وطن کے لیے یہ تجربہ بہت دلچسپ اور خوشگوار ہے ۔عمران کہتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔ میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ جب بزرگوں کو اردو بولتے دیکھتا ہوں تو بہت مزہ آتا ہے۔ شعر سنتا ہوں تو مزا آتا ہے۔ میں صرف 40 فی صد اردوسمجھتا ہوں لیکن دل چاہتا ہے کہ زیادہ سمجھ سکوں۔
ابولحسن نغمی کا کہنا تھا کہ ایسی محفلیں پاکستانیوں کی نئی نسل کو نہ صرف اپنی زبان اور ثقافت سے قریب رکھیں گی بلکہ نئی اور پرانی نسل کے درمیان پیدا ہونےو الی غلط فہمیاں اور نسلی تفاوت کو مٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوں گی۔