امریکہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شام اپنے ہاں روزانہ کی بنیاد پر قیدیوں کا قتل عام اور پھر ان کی لاشوں کو جلاتا رہا ہے اور اس کے لیے دارالحکومت دمشق کے مضافات میں ایک جگہ بھی مخصوص کی گئی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کا پیر کو کہنا تھا کہ صیدنایا جیل میں روزانہ تقریباً 50 قیدیوں کو پھانسی دی جاتی رہی اور صدر بشار الاسد کی حکومت مبینہ طور پر شواہد چھپانے کے لیے ان لاشوں کو نذر آتش کر دیتی ہے۔
مشرقی وسطیٰ کے لیے اعلیٰ امریکی سفارتکار اسٹیورٹ جونز کا کہنا تھا کہ دمشق حکومت "اخلاقی پستی کی ایک نئی سطح تک گر چکی ہے،" اور روس اور ایران کی مسلسل فوجی معاونت سے اسد حکومت مختلف باغی گروپوں سے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس چھ سالہ خانہ جنگی میں چار لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جونز نے ماسکو کے لاشوں کو جلائے جانے میں ملوث ہونے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا اور بتایا کہ محکمہ خارجہ نے ابھی تک قتل عام سے متعلق شواہد کا روسی حکام سے تبادلہ نہیں کیا۔
تاہم ان کے بقول امریکہ شام کی ایذا رسانیوں کی مذمت میں ناکامی اور انھیں برداشت کیے جانے پر روسیوں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکی سفارتکار نے مزید کہا کہ ہم روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسد حکومت کو ان مظالم کا ذمہ دار ٹھہرائے۔
گزشتہ ماہ امریکہ نے شامی فضائی کی طرف سے اپنے شہریوں پر مبینہ کیمیائی حملے کی پاداش میں ایک فوجی اڈے پر کروز میزائل داغے تھے۔
جونز سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا امریکہ لاشوں کو جلانے والے مقام پر بھی حملے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ "اس بات کا اشارہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کرے گا اور کیا نہیں۔"
انھوں نے کہا کہ اس موقع پر ہم ان شواہد کا ذکر کر رہے ہیں اور اسے بین الاقوامی برادری کے سامنے لا رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ عالمی برادری شام کی حکومت پر اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گی۔