صدر براک اوباما نے جمعرات کے روز افغانستان اور پاکستان کے لیئے اپنی حکمت عملی کے سالانہ جائزے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے انھوں نے جو حکمت عملی وضع کی تھی وہ کام کر رہی ہے ۔ تا ہم، صدر نے تسلیم کیا جو پیش رفت ہوئی ہے، وہ کمزور ہے اور حالات پھر پرانی ڈگر پر واپس جا سکتے ہیں۔ اگرچہ سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ 2011 اور 2014 کے لیئے جو اہم اہداف مقرر کیئے گئے ہیں، وہ پورے ہو جائیں گے، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ حکمت عملی کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کوئی قطعی رائے دینا قبل از وقت ہو گا۔
صدر کی طرف سے حکمت عملی کا جو جائزہ پیش کیا گیا اس میں چونکا دینے والی کوئی بات نہیں تھی۔انھوں نے کہا کہ اس حکمت عملی کے اعلان کے ایک سال بعد، اور اضافی فوجوں کی آمد کے چھہ مہینے سے بھی کم عرصے بعد، اس حکمت عملی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
صدر اوباما کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول میں صحیح راستے پر ہیں۔ اپنے فوجی مقاصد کے حصول میں ہمیں خاصی کامیابیاں ہوئی ہیں۔
لیکن صدر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کامیابیاں مشکل سے حاصل ہوئی ہیں اور وہ زیادہ پائیدار نہیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ نظم و نسق اور اقتصادی ترقی کے شعبے میں مزیدکام کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو اپنی سرحد کے اندر باغیوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیئے مزید کوشش کرنی چاہیئے۔
صدر کی تقریر جاری تھی، اور افغانستان میں امریکی فوجوں کے لیئے جنگ کا خونریز ترین سال ختم ہونے والا تھا جس میں تقریباً 500 امریکی ہلاک اور پانچ ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
صدر نے اس مرحلے پر اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے پیشرو، جارج ڈبلیو بُش سے مختلف راہ اختیار کرنا چاہتے تھے جن پر الزام تھا کہ انھوں نے جو راہ اختیار کی تھی وہ اس سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے اگرچہ بہت سے ماہرین کی نظر میں عراق میں ان کی حکمت عملی کام نہیں کر رہی تھی۔ لیکن اب وہی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اوباما کا جائزہ قبل از وقت ہے ۔ بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مائیکل اوہیلن کے کہتے ہیں کہ اتنے کم وقت میں بڑے نتائج کی توقع کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ یہ ایک عبوری جائزہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں پالیسی میں کچھ معمولی سی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں لیکن کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہو گی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ افغانستان میں حالات میں بہتری لانا بہت مشکل ہے اور حالات میں تبدیلی کا اندازہ لگانا بھی اتنا ہی مشکل ہے کیوں کہ افغانستان کی زمین سنگلاخ ہے، وہاں کرپشن کا دور دورہ ہے، معاشرہ پیچیدہ قبائلی نظام کے تحت ہے اور طالبان کا اثر و رسوخ بہت گہرا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں کہ فی الحال افغانستان میں حالات کی بہتری کو مقامی حالات کی سطح پر جانچنا چاہیئے اور فوجی یونٹوں کا کام یہ ہے کہ وہ چھوٹے مستحکم علاقوں کو وسعت دیں، اور انہیں قائم رکھنے کے لیئے افغان فورسز کی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔
مسٹر گیٹس کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹریٹجی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ طالبان کا زور توڑا جائے، ان کی طاقت اور صلاحیت کو کم کیا جائے اور انہیں بڑی آبادی والے علاقوں کےکنٹرول سے محروم کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آپ افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کو طاقتور بنائیں تا کہ وہ طالبان سے ٹکر لے سکیں۔
اس مرحلے پر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ طریقہ کار گر ہو گا یا نہیں ۔ لیکن صدر اوباما نے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل اگلی جولائی میں شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے اور انھوں نے اور نیٹو کے دوسرے لیڈروں نے افغانستان میں اپنی فورسز کی جنگی کارروائیاں ختم کرنے کے لیئے 2014 کے آخر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ سینٹر فار نیوامریکن سیکیورٹی کے تجزیہ کاررچرڈ فونٹین کو پہلی ڈیڈ لائن کے بارے میں شبہ ہے اور دوسری ڈیڈ لائن کے بارے میں وہ محتاط ہیں۔
ان کے الفاظ ہیں کہ میر ے خیال میں جولائی 2011 تک ہمیں اتنی ڈرامائی کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی کہ ہم امریکی فوجوں کی تعداد میں کوئی قابلِ ذکر کمی کر سکیں۔ 2014 تک ہمیں یا تو یہ پتہ چل جائے گا کہ ہم نے اتنی پیش رفت کر لی ہے کہ ہم افغانوں کو پوری ذمہ داری سونپ سکتے ہیں، یا پھر ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ افغانستان میں حالات بہتر ہونا نا ممکن ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کچھ بہت مشکل فیصلے کرنے ہوں گے کہ ہمیں اب کیا کرنا چاہیئے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرکاری عہدے دار کہتے ہیں کہ اگر پیش رفت رک جاتی ہے اور اب تک جو کامیابی ہوئی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے، تو وہ 2014 سے پہلے ہی یہ بات جاننا چاہتے ہیں۔ چند مہینوں بعد ، فوجوں کی ابتدائی واپسی کی تیاری کے لیئے، ایک اور جائزہ لیا جائے گا، اور سال کے آخر میں ایک زیادہ تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔
وہائٹ ہأس کے افغان حکمت عملی کے 2010 کے جائزے میں جو صورت حال بیان کی گئی ہے وہ بڑی حد تک توقع کے مطابق ہے، یعنی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن مسائل باقی ہیں۔ آنے والے سال میں صدر اوباما، امریکی کانگریس، اور اتحادی ملکوں کی حکومتیں اپنی حکمت عملی اور اپنی فوجوں کی تعداد پر نظر ثانی کے لیئے حالات کا بغور جائزہ لیتی رہیں گی۔