رسائی کے لنکس

افغان پالیسی کاجائزہ، پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش


افغان پالیسی کاجائزہ، پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش
افغان پالیسی کاجائزہ، پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش

افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کا جائزہ مکمل ہونےکے بعد صدر اوباما نے واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کی قیادت کمزور اور طالبان کا زور ٹوٹ چکا ہے لیکن پاکستان کو اپنی سرحدوں کے اندر القاعدہ کے ٹھکانے ختم کرنے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی کا یہ جائزہ گزشتہ سال صدر اوباما کی جانب سے تیس ہزار مزید امریکی فوجی بھیجنے کے اعلان کے ایک سال بعد ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے ، جب امریکہ میں افغان جنگ کی حمایت اپنی کم ترین سطح پر ہے۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ آج افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کی سینئیر قیادت اس وقت کے مقابلے میں شدید دباو کا شکار ہے ۔ جب انہوں نے نو سال پہلے افغانستان سے فرار اختیار کیا تھا ۔ اس کے سینئیر لیڈر مارے جا چکے ہیں ، ان کے لئے نئی بھرتیاں کرنا ، سفر کرنا ، تربیت دینا یا تربیت حاصل کرنا یا نئے حملوں کی منصوبہ بندی کرنا اب آسان نہیں رہا ۔ القاعدہ کا زور ٹوٹ چکا ہے ۔

صدر اوباما نے افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکی پالیسی کے جائزے کے بعد واشنگٹن میں صحافیوں سے خطاب میں کہا کہ امریکی حکمت عملی میں توجہ بدستور پاکستان میں موجود القاعدہ پر رہے گی جہاں القاعدہ کے محفوظ ٹھکانوں میں کمی تو واقع ہوئی ہے مگر وہ بدستور ایک خطرہ ہیں ۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ پیش رفت کی رفتار اتنی تیز نہیں ہے۔ ہم پاکستانی قیادت سے کہیں گے کہ ان کی سرحدوں میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پاکستان کی معاشی اور سیاسی ترقی کے لئے مدد جاری رکھنی ہے جو اس کے مستقبل کے لئے بے حد اہم ہے ۔ پاکستان کے ساتھ اپنے سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے ذریعے ہم اعتماد اور تعاون بڑھانے کی کوشش جاری رکھیں گے ۔

صدراوباما نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اگلے سال سے افغانستان کاکنٹرول اس کے اپنے سیکیورٹی اداروں کے سپرد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیں گے ۔لیکن ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو درپیش ہر خطرے کا خاتمہ کرنا امریکہ کا مقصد نہیں تھا ۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو تیار کرنا ہمارا کام نہیں ، یہ افغان عوام کا کام ہے ۔ ہمارا مقصد افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ کو منتشر کرنا اور شکست دینا تھا ۔

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان نے اپنی ایک لاکھ چالیس ہزار فوج پاک افغان سرحد پر لگا رکھی ہے ۔ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی سویلین حکمت عملی نے کافی پیش رفت دکھائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو سال پہلے کے ہمارے 320 سویلین عہدیداروں کے مقابلے میں اب افغانستان میں 1100 امریکی شہری کام کر رہے ہیں ۔ ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے ہمارے شہریوں ، فوجیوں اور عالمی اور افغان شراکت داروں کے درمیان قریبی تعاون ضروری ہے ۔ ہم نے طالبان کا زور مل جل کر ہی توڑا ہے۔

واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز کا خیال ہے کہ افغان جنگ کے بارے میں صدر اوباما کے پالیسی جائزے میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کے امکانات کا جائزہ لینے کے لئے جولائی 2011ء کا انتطار کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تک وہ اس پوزیشن میں ہونگے کہ افغانستان سے فوج کی واپسی کی نوعیت اور رفتار کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکیں۔ افغانستان سے فوج کا انخلا اچانک نہیں ہوگا۔

اس دوران جنگ مخالف مظاہرین کے ایک گروپ ویٹرنز آف پیس نے وائٹ ہاوس کے سامنے برفباری کے باوجود افغان جنگ کے خلاف ایک مظاہرہ کیا ۔ سابق فوجی تجزیہ کار ڈینئیل ایلسا برگ کا کہنا تھاکہ عوام کو پتا لگ چکا ہے کہ یہ جنگ اتنی ہی مایوس کن اور غلط ہے جتنی کہ ویت نام کی جنگ تھی۔

XS
SM
MD
LG