امریکی بَری فوج کے جنرل جنھیں افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی افواج کی قیادت کے لیے چُنا گیا ہے، متنبہ کیا ہے کہ وہاں کی سلامتی کی ’’صورت ِحال دگرگوں ہے، باوجود اس بات کے کہ افغان افواج نے جراٴت مندانہ کوششیں جاری رکھی ہیں‘‘۔
لیفٹیننٹ جنرل جان ’مِک‘ نکلسن نے جمعرات کو سینیٹ کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہ افغانستان کو پناہ گاہ بنانے کا تر نوالہ خیال کرتے ہیں۔ اُنھوں نے متنبہ کیا کہ امریکہ کو زیادہ جارحاجہ انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔
نکلسن کے بقول، ’’ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان میں گھسنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے پاس اُسی سطح کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت موجود ہے کہ ہم صورتِ حال سے نبردآزما ہوسکیں‘‘۔
امریکی فوجی اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں کی جانب سے داعش کے شدت پسند گروپ کے پھیلاؤ سے متعلق خصوصی تشویش، جس نے صوبہ ٴننگرہار میں ایک محفوظ پناہ گاہ قائم کرنے کی کوشش کی اور صوبہٴ قندھار میں بغاوت کے دوبارہ سر اٹھانے کی صورت حال پیدا ہوئی۔
طالبان ایک بار پھر خطرہ بن کر اُبھرے ہیں، جنھوں نے کچھ مدت تک قندوز کے شمالی شہر پر قبضہ جمائے رکھا، جب کہ صوبہٴ ہیلمند کے اہم اضلاع پر قبضہ کر لیا تھا۔ اِس بارے میں بھی تشویش ہے کہ طالبان قندھار کے اپنے روحانی مرکز پر قبضے کی خواہش رکھتے ہیں۔
نکلسن نے قانون سازوں کو یقین دلایا کہ امریکہ ہاتھ ہاتھ پر دھرے نہیں بیٹھا رہے گا۔
نکلسن کے بقول، ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم قندھار کو طالبان کے ہتھے چڑھنے سے روکیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ امریکہ فوج کو اس بات کی ’’ضرور‘‘ تاکید کریں گے کہ وہ اس صوبائی دارالحکومت پر دوبارہ قبضہ جمانے کی ہرگز اجازت نہ دیں۔
قانون سازوں کی جانب سے توثیق کے بعد، نکلسن افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج کے کمانڈر کے طور پر جنرل جان کیمپ بیل سے عہدے کا چارج لیں گے، جو متوقع طور پر ریٹائر ہونے والے ہیں۔