امریکی فوج نے کہا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران یمن میں القاعدہ سے وابستہ شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے کی جانے والی فضائی کارروائیوں میں اس تنظیم کے 13 جنگجو مارے گئے جب کہ اُن کا ایک ساتھی زخمی ہوا۔
امریکہ کی سینٹرل کمانڈ سے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق 24 اگست سے چار ستمبر کے درمیان یمن کے وسطی شبواہ صوبے میں تین فضائی کارروائیاں کی گئیں۔
اس علاقے میں سرگرم القاعدہ خطے اور امریکہ کے لیے بدستور ایک خطرہ تصور کی جاتی ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے بیان کے مطابق القاعدہ کی موجودگی یمن میں عدم استحکام کی ایک وجہ ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ تنظیم یمن میں بدامنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی اتحادیوں کے علاوہ امریکہ اور اس کے مفادات پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
یمن میں القاعدہ کے جنگجوؤں کو امریکہ گزشتہ سات سال سے ڈرون حملوں سے نشانہ بناتا رہا ہے۔ اس ملک میں 100 سے زائد ڈرون حملوں میں القاعدہ کے کئی اہم کمانڈر بھی مارے جا چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی ایسے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔
رواں سال جولائی میں وائٹ ہاؤس نے اس بارے میں جاری اعداد و شمار میں تصدیق کی تھی کہ ڈرون حملوں میں 2009ء سے یمن، پاکستان اور افغانستان میں 64 عام شہری مارے گئے۔ لیکن انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
صدر براک اوباما نے ایک حکم میں کہا تھا کہ ایسے تنازعات میں شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کی ضرورت ہے۔