گذشتہ جمعرات کو ٹیکساس میں جارج ڈبلیو بش لائبیری کے افتتاح سے تاریخ میں سابق صدر کے مقام کے بارے میں ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب مسٹر بش نے 2009 میں اپنا عہدہ چھوڑا، اس وقت امریکیوں میں ان کی مقبولیت بہت کم تھی ۔ لیکن حال ہی میں جو سروے ہوئے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ساکھ کسی حد تک بحال ہو رہی ہے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ انہیں رائے عامہ کے جائزوں کی کبھی کوئی فکر نہیں رہی ہے، اور ان کی صدارت کے بارے میں آخری فیصلہ تاریخ کرے گی۔
اپنی صدارتی لائبریری کے افتتاح کے موقع پر ، مسٹر بش نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی انتظامیہ کو ایک روز آزادی پھیلانے کی کوششوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ’’سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہتےہیں ۔ رائے عامہ کے جائزے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ حمایت کرنے والے آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن آخر میں، لیڈروں کی شخصیت ا ن کے مضبوط خیالات سے متعین ہوتی ہے۔‘‘
تاریخ داں کہتے ہیں کہ صدور کے لیے تاریخ کے فیصلے سے فرار حاصل کرنا یا اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد اسے تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بروس بکانان یونیورسٹی آف ٹیکساس میں سیاسیات کے پروفیسر اور صدارتی عہدے کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر کے لیے اپنی انتظامیہ کے بارے میں تاثر بدلنے کی کوشش کرنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے جب عراق کی جنگ کی بات ہوتی ہے۔
’’اگر عراق میں جمہوریت ایسے پھول کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اب سے 20, 30, 40 سال کے عرصے میں کِھل اٹھتا ہے، اور بقیہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیل جاتا ہے، تو اس بات کا امکان قوی ہے کہ صدر کو بغیر کسی اشتعال کے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر معافی دے دی جائے ۔ فی الحال کسی اعتماد یا یقین کے ساتھ ایسی پیشگوئی کرنا مشکل ہو گا۔‘‘
2009 کے شروع میں جب مسٹر بش نے وائٹ ہاؤس چھوڑا، تو ان کی مقبولیت کی شرح 33 فیصدر رہ گئی تھی۔ تا ہم واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کے تازہ ترین پول کے مطابق، اب ان کی مقبولیت 47 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح بش کے حامیوں کی امید بندھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا تاثر بہتر ہوتا جائے گا۔
سابق صدور ہیری ٹرو مین اور رچرڈ نکسن نے بھی ایسے وقت میں اپنا عہدہ چھوڑا جب ان پر سیاسی ادبار آ چکا تھا ۔ مسٹر ٹرومین کی غیر مقبولیت کی وجہ کوریا کی جنگ تھی ۔ مسٹر نکسن کو واٹر گیٹ اسکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ، ٹرومین کی مقبولیت کی شرح بہتر ہو گئی، لیکن نکسن کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔
پروفیسر بوکانان کہتے ہیں کہ جارج ڈبلیو بش کو امید ہے کہ صدارت کے بعد مقبولیت کے معاملے میں وہ ٹرومین کے ماڈل کی تقلید کریں گے ۔’’صدر بش کے بارے میں لوگوں کو جو چیز پسند آئی وہ یہ ہے کہ انھوں نے خود کو عوامی توجہ سے دور رکھا۔ رچرڈ نکسن کی طرح انھوں نے خود اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے یہ کام دوسروں پر چھوڑ دیا ۔‘‘
تاریخ داں رچرڈ نورٹن اسمتھ کہتے ہیں کہ سابق صدر وقت کے ساتھ ساتھ اکثر زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں، خاص طور سے آج کے جدید اطلاعاتی وسائل کے دور میں۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ ملک کے ابتدائی برسوںمیں، بہت سے امریکی صدور کے لیے حالات ایسے نہیں تھے ۔ ’’الیگزینڈر ہیملٹن نے فیڈرلسٹ پیپرز میں اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ سابق صدور ایسی روحوں کی مانند ہوں گے جو ادھر ادھر مار ے مارے پھرتے رہیں گے اور اپنے جانشینوں کے اعصاب پر سوار رہیں گے کیوں کہ ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ریپبلک کے شروع کے پہلے 100 برسوں میں، یہ بات کسی حد تک سچ ثابت ہوئی ۔‘‘
جدید دور میں جمی کارٹر، ہربرٹ ہوور اور بل کلنٹن جیسے سابق صدور نے خود کو عوامی خدمت کے لیے وقف کیا ہے ۔ مثال کے طور پر، ہوور نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کو بھوک سے نجات دلانے کی کوشش کی قیادت کی تھی۔
بروس بوکانان کہتے ہیں کہ بعض ایسے صدور جو اپنے عہدے میں سب سے کم کامیاب تھے، اس کام کے ذریعے اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئے جو انھوں نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد انجام دیا ۔
’’کارٹر کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے بیشتر میں ان کے عہدِ صدارت کے بارے میں کوئی بہت اچھی باتیں نہیں کہی گئی ہیں ۔ لیکن انھوں نے جو اچھے کام کیے ہیں، ان کی بنا پر انہیں امریکی تاریخ کا بہترین سابق صدر کہا جا رہا ہے ۔‘‘
صدر براک اوباما بش لائبریری کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے ، اور ممکن ہے کہ اس موقع پر انھوں نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں محفوظ کر لی ہوں۔ آئین کے تحت، مسٹر اوباما کو تیسری بار صدارت کے لیے امیدوار بننے کی ممانعت ہے، اور جنوری 2017 میں جب وہ اپنے عہدے کی دوسری مدت مکمل کر لیں گے، تو سابق صدور کے کلب میں شامل ہو جائیں گے۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے ہمیشہ اصرار کیا ہے کہ انہیں رائے عامہ کے جائزوں کی کبھی کوئی فکر نہیں رہی ہے، اور ان کی صدارت کے بارے میں آخری فیصلہ تاریخ کرے گی۔
اپنی صدارتی لائبریری کے افتتاح کے موقع پر ، مسٹر بش نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی انتظامیہ کو ایک روز آزادی پھیلانے کی کوششوں کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ ’’سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہتےہیں ۔ رائے عامہ کے جائزے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ حمایت کرنے والے آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن آخر میں، لیڈروں کی شخصیت ا ن کے مضبوط خیالات سے متعین ہوتی ہے۔‘‘
تاریخ داں کہتے ہیں کہ صدور کے لیے تاریخ کے فیصلے سے فرار حاصل کرنا یا اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد اسے تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
بروس بکانان یونیورسٹی آف ٹیکساس میں سیاسیات کے پروفیسر اور صدارتی عہدے کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر کے لیے اپنی انتظامیہ کے بارے میں تاثر بدلنے کی کوشش کرنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے جب عراق کی جنگ کی بات ہوتی ہے۔
’’اگر عراق میں جمہوریت ایسے پھول کی شکل اختیار کر لیتی ہے جو اب سے 20, 30, 40 سال کے عرصے میں کِھل اٹھتا ہے، اور بقیہ مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیل جاتا ہے، تو اس بات کا امکان قوی ہے کہ صدر کو بغیر کسی اشتعال کے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر معافی دے دی جائے ۔ فی الحال کسی اعتماد یا یقین کے ساتھ ایسی پیشگوئی کرنا مشکل ہو گا۔‘‘
2009 کے شروع میں جب مسٹر بش نے وائٹ ہاؤس چھوڑا، تو ان کی مقبولیت کی شرح 33 فیصدر رہ گئی تھی۔ تا ہم واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی کے تازہ ترین پول کے مطابق، اب ان کی مقبولیت 47 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس طرح بش کے حامیوں کی امید بندھی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا تاثر بہتر ہوتا جائے گا۔
سابق صدور ہیری ٹرو مین اور رچرڈ نکسن نے بھی ایسے وقت میں اپنا عہدہ چھوڑا جب ان پر سیاسی ادبار آ چکا تھا ۔ مسٹر ٹرومین کی غیر مقبولیت کی وجہ کوریا کی جنگ تھی ۔ مسٹر نکسن کو واٹر گیٹ اسکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے صدارت کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔
وقت کے ساتھ ساتھ ، ٹرومین کی مقبولیت کی شرح بہتر ہو گئی، لیکن نکسن کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔
پروفیسر بوکانان کہتے ہیں کہ جارج ڈبلیو بش کو امید ہے کہ صدارت کے بعد مقبولیت کے معاملے میں وہ ٹرومین کے ماڈل کی تقلید کریں گے ۔’’صدر بش کے بارے میں لوگوں کو جو چیز پسند آئی وہ یہ ہے کہ انھوں نے خود کو عوامی توجہ سے دور رکھا۔ رچرڈ نکسن کی طرح انھوں نے خود اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے یہ کام دوسروں پر چھوڑ دیا ۔‘‘
تاریخ داں رچرڈ نورٹن اسمتھ کہتے ہیں کہ سابق صدر وقت کے ساتھ ساتھ اکثر زیادہ مقبول ہو جاتے ہیں، خاص طور سے آج کے جدید اطلاعاتی وسائل کے دور میں۔
اسمتھ کہتے ہیں کہ ملک کے ابتدائی برسوںمیں، بہت سے امریکی صدور کے لیے حالات ایسے نہیں تھے ۔ ’’الیگزینڈر ہیملٹن نے فیڈرلسٹ پیپرز میں اس پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ سابق صدور ایسی روحوں کی مانند ہوں گے جو ادھر ادھر مار ے مارے پھرتے رہیں گے اور اپنے جانشینوں کے اعصاب پر سوار رہیں گے کیوں کہ ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ریپبلک کے شروع کے پہلے 100 برسوں میں، یہ بات کسی حد تک سچ ثابت ہوئی ۔‘‘
جدید دور میں جمی کارٹر، ہربرٹ ہوور اور بل کلنٹن جیسے سابق صدور نے خود کو عوامی خدمت کے لیے وقف کیا ہے ۔ مثال کے طور پر، ہوور نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کو بھوک سے نجات دلانے کی کوشش کی قیادت کی تھی۔
بروس بوکانان کہتے ہیں کہ بعض ایسے صدور جو اپنے عہدے میں سب سے کم کامیاب تھے، اس کام کے ذریعے اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئے جو انھوں نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد انجام دیا ۔
’’کارٹر کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے بیشتر میں ان کے عہدِ صدارت کے بارے میں کوئی بہت اچھی باتیں نہیں کہی گئی ہیں ۔ لیکن انھوں نے جو اچھے کام کیے ہیں، ان کی بنا پر انہیں امریکی تاریخ کا بہترین سابق صدر کہا جا رہا ہے ۔‘‘
صدر براک اوباما بش لائبریری کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے ، اور ممکن ہے کہ اس موقع پر انھوں نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں محفوظ کر لی ہوں۔ آئین کے تحت، مسٹر اوباما کو تیسری بار صدارت کے لیے امیدوار بننے کی ممانعت ہے، اور جنوری 2017 میں جب وہ اپنے عہدے کی دوسری مدت مکمل کر لیں گے، تو سابق صدور کے کلب میں شامل ہو جائیں گے۔