امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جمعرات کے دِن واشنگٹن میں موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے کو نظرانداز کرنے کے سنگین معاشی نتائج برآمد ہوں گے۔
اُنھوں نے یہ بات ’ایٹلانٹک کونسل‘ کے ’گلوبل انرجی سینٹر‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ کیری نے کہا کہ کرہٴارض کے مستقبل سے جوا کھیلنا، غیر اخلاقی انداز ہوگا، جب کہ ناعاقبت اندیشی کسی طور پر مناسب نہ ہوگی۔
اُنھوں نے کہا کہ ماہرین کے تجزیات کو دیکھتے ہوئے، 97 فی صد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور اس کے زیادہ تر ذمہ دار انسانی طور طریقے ہیں۔
بقول اُن کے، ’ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا، کیونکہ کوئی متبادل سیارہ نہیں ہے‘۔
فروری میں دی جانے والی ایک بریفنگ کے دوران، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ آفاقی نوعیت کے موسمیاتی تبدیلی کا سمجھوتا طے کرنے کے لیے 2015ء ایک اہم سال کا درجہ رکھتا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات ایسے وقت کی ہے جب امریکہ اور عالمی طاقتیں موسم کی تبدیلی پر دسمبر میں پیرس میں منعقد ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں، جہاں وہ اپنا ذہن عالمی تپش کے انسداد کے لیے کاربن کے اخراج میں کمی لانے سے متعلق بین الاقوامی معیار کے تعین پر مرتکز رکھیں گے۔
کیری نے کہا کہ خشک سالی، سیلاب اور سمندری طوفانوں کی شدت میں اضافے کے باعث انتشار پیدا ہوگا، جو صورت حال روزگار کے مواقع پر اثرانداز ہوگی۔
بقول اُن کے، ’عالمی زراعت میں بگاڑ کے اثرات پیدا ہوں گے، جن کے باعث لاکھوں کسانوں کا روزگار متاثر ہوگا، جب کہ لاکھوں خاندانوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوپائیں گی‘۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی چاول، گندم اور مکئی جیسی غذائی اجناس کی فصلوں کی پیداوار ہر دہائی میں دو فی صد کی شرح سے کم ہوتی جائیں گی۔
کیری کے بقول، ’اس بات پر غور کرنا ہوگا آیا دنیا بھر کے لاکھوں کسانوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا، اور یہ کہ افراط زر اجناس کی قیمتوں پر کس طرح اثرانداز ہوگی۔‘
کیری نےکہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ توانائی کی بہتر پالیسی اختیار کی جائے، جس میں دوبارہ استعمال کے قابل توانائی، مثلاً شمسی یا پون چکی جیسے ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کے میدان میں عالمی سرمایہ کاری کرنا شامل ہے۔