امریکہ کی کوئلے کی صعنت سے وابستہ بعض بڑی کمپنیوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے بیان پر عمل نا کرنے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے "روئیڑز " کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کلاؤڈ پیک انرجی اور پی باڈی انرجی جیسی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے عالمی سمجھوتہ میں شامل رہ کر امریکہ کو کوئلے کے استعمال کی وکالت کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
یہ بات ان کمپنیوں کے عہدیداروں اور اس بات چیت سے آگاہ ایک امریکی عہدیدار نے بتائی ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر کہا کہ "مستقبل غیر ملکی منڈیوں کا ہے اور اگر آپ ایک کوئلے کی کمپنی ہیں تو ایسی بات آپ کبھی بھی نہیں کریں گے کہ بین الاقوامی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہونے والی بات چیت سے متعلق فورم (سے الگ ہو جائیں) اور اس کی وجہ سے یورپی کمپنیوں کو اس کا ایجنڈا طے کرنے کو موقع مل جائے۔"
یہ عہدیدار اس بارے میں سرکاری طور پر بات کرنے کا مجاز نہیں ہے، تاہم کلاؤڈ پیک اور پی باڈی کے عہدیداروں نے اس بات چیت کی تصدیق کی ہے۔
کلاؤڈ پیک کے نائب صدر رچرڈ ریوی نے کہا کہ اُن کی کمپنی کی نظر میں اس سمجھوتہ میں شامل رہ کر "ایک بہت متوازن، معقول اور مناسب راستہ اختیار کرنے" کی کوشش کی حوصلہ افزائی کرنا زیادہ مناسب راستہ ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کے لیے دنیا کے لگ بھگ 200 ممالک نے 2015ء میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو محدود کر کے عالمی حدت کو کنٹرول کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے گیسوں کے اخراج کو 2025ء تک 26 سے 28 فیصد کمی کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
2016ء کی صداراتی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخت ہو گئے تو امریکہ اس معاہدے سے نکل جا ئے گا۔ انہوں نے بظاہر یہ بات رپبلکنز راہنماؤں کے ان تحفظات کے تحت کی جن کو موقف تھا کہ اس سمجھوتے میں شامل رہتے ہوئے، اقوام متحدہ امریکہ کی توانائی پیدا کرنے کے طریقوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔
تاہم صدر منتخب ہونے کے بعد سے ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے کے بارے میں زیادہ تر خاموش رہے اور اتنظامیہ کے عہدیدار حالیہ دنوں میں توانائی کی کمپنیوں سے اس معاملے پر مشاورت کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان شون سپائسر نے گزشتہ ہفتہ کہا کہ ا س سمجھوتہ میں شامل رہنے یا اس سے الگ ہونے کے بارے میں انتطامیہ متوقع طور پر فیصلہ اس وقت کرے گی جب دنیا کے بڑے صنعتی ممالک کے گروپ آف سیون کے راہنماؤں کا مئی کے اواخر میں اجلاس ہو گا۔