امریکہ کی ایک عدالت نے گوگل کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ 'یوٹیوب' سے اسلام مخالف فلم ہٹائے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین اس فیصلے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
2012ء میں اسلام مخالف فلم 'انوسنس آف مسلمز' کے مناظر یو ٹیوب پر آنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے مختلف مسلمان ممالک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں پرتشدد مظاہروں میں لگ بھگ 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ املاک کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔
مظاہروں کے بعد پاکستانی حکومت حکومت نے 17 ستمبر 2012ء کو یوٹیوب تک رسائی بند کردی اور یہ پابندی تاحال برقرار ہے۔
انٹرنیٹ تک بلا روک ٹوک رسائی کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی تنظیم بائیٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکی عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کے آ جانے کے بعد ہمارے حکام کے پاس اب کوئی جواز نہیں رہ گیا کہ وہ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم کو بند رکھیں…. ہماری حکومت اگر اس پابندی کو جاری رکھتی ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے۔‘‘
یوٹیوب سے متعلق امریکی عدالت کے فیصلے پر پاکستانی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یاد رہے کہ فلم 'انوسنس آف مسلمز' میں کام کرنے والی ایک اداکارہ سنڈی لی گارشیا کی طرف سے دائر درخواست پر سان فرانسسکو کی نائینتھ یو ایس سرکٹ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یوٹیوب کی مالک کمپنی گوگل کو حکم دیا کہ وہ اپنی ویب سائیٹ سے اس فلم کو ہٹائے۔
اداکارہ کا موقف تھا کہ فلم کے بارے میں ان سے دھوکا کیا گیا کیونکہ اس فلم کی تیاری میں انھیں نہیں بتایا گیا کہ یہ اسلام مخالف ہو گی۔ ان کے بقول اس میں کسی بھی مذہب یا اسلام مخالف کوئی کام نہیں تھا۔
سنڈی کے مطابق اس فلم کے منظر عام پر آنے کے بعد انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ٹرائل جج نے اس فلم کے ہٹائے جانے کی درخواست مسترد کر کے غلطی کی تھی۔
اس فیصلے پر تاحال یوٹیوب یا گوگل کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
قبل ازیں یوٹیوب امریکی صدر براک اوباما سمیت متعدد عالمی لیڈروں کی طرف سے وڈیو ہٹانے کے مطالبات مسترد کر چکی ہے اور اس کا اصرار تھا کہ یہ مطالبات حکومتی سنسرشپ کے مترادف ہیں۔
ویب سائیٹ کا موقف تھا کہ اس فلم کے جملہ حقوق فلمسازوں کے پاس ہیں نہ کہ اداکاروں کے پاس لہذا وہی اسے یوٹیوب سے ہٹا سکتے ہیں۔
لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اداکارہ کے اس بیان کا احترام کیا جانا چاہیئے کہ انھوں نے جس فلم میں اداکاری کی، وہ مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے والی فلم سے مختلف تھی۔
2012ء میں اسلام مخالف فلم 'انوسنس آف مسلمز' کے مناظر یو ٹیوب پر آنے کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے مختلف مسلمان ممالک میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
پاکستان میں پرتشدد مظاہروں میں لگ بھگ 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ املاک کو بھی بری طرح نقصان پہنچا۔
مظاہروں کے بعد پاکستانی حکومت حکومت نے 17 ستمبر 2012ء کو یوٹیوب تک رسائی بند کردی اور یہ پابندی تاحال برقرار ہے۔
انٹرنیٹ تک بلا روک ٹوک رسائی کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی تنظیم بائیٹس فار آل کے سربراہ شہزاد احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں امریکی عدالت کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے کے آ جانے کے بعد ہمارے حکام کے پاس اب کوئی جواز نہیں رہ گیا کہ وہ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم کو بند رکھیں…. ہماری حکومت اگر اس پابندی کو جاری رکھتی ہے تو یہ کسی صورت مناسب نہیں ہے۔‘‘
یوٹیوب سے متعلق امریکی عدالت کے فیصلے پر پاکستانی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یاد رہے کہ فلم 'انوسنس آف مسلمز' میں کام کرنے والی ایک اداکارہ سنڈی لی گارشیا کی طرف سے دائر درخواست پر سان فرانسسکو کی نائینتھ یو ایس سرکٹ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یوٹیوب کی مالک کمپنی گوگل کو حکم دیا کہ وہ اپنی ویب سائیٹ سے اس فلم کو ہٹائے۔
اداکارہ کا موقف تھا کہ فلم کے بارے میں ان سے دھوکا کیا گیا کیونکہ اس فلم کی تیاری میں انھیں نہیں بتایا گیا کہ یہ اسلام مخالف ہو گی۔ ان کے بقول اس میں کسی بھی مذہب یا اسلام مخالف کوئی کام نہیں تھا۔
سنڈی کے مطابق اس فلم کے منظر عام پر آنے کے بعد انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملتی رہی ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ٹرائل جج نے اس فلم کے ہٹائے جانے کی درخواست مسترد کر کے غلطی کی تھی۔
اس فیصلے پر تاحال یوٹیوب یا گوگل کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
قبل ازیں یوٹیوب امریکی صدر براک اوباما سمیت متعدد عالمی لیڈروں کی طرف سے وڈیو ہٹانے کے مطالبات مسترد کر چکی ہے اور اس کا اصرار تھا کہ یہ مطالبات حکومتی سنسرشپ کے مترادف ہیں۔
ویب سائیٹ کا موقف تھا کہ اس فلم کے جملہ حقوق فلمسازوں کے پاس ہیں نہ کہ اداکاروں کے پاس لہذا وہی اسے یوٹیوب سے ہٹا سکتے ہیں۔
لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اداکارہ کے اس بیان کا احترام کیا جانا چاہیئے کہ انھوں نے جس فلم میں اداکاری کی، وہ مکمل ہونے کے بعد سامنے آنے والی فلم سے مختلف تھی۔