واشنگٹن —
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک ایسا بازار ہے جہاں پر خرید و فروخت کے لیے اشاروں کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جی ہاں، ’یونین مارکیٹ‘ نامی اس بازار میں دکانداروں سے لے کر خریداروں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سماعت یا گویائی سے متعلق کسی مسئلے کا شکار ہیں۔
یہ بازار ایسے ہی افراد کے لیے ایک خاص مقام بن گیا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں لوگ آتے ہیں، خریداری کرتے ہیں اور کھانے پینے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قوت ِ سماعت یا گویائی سے محروم افراد کو یہاں پر کسی پریشانی یا دقت کا سامنا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پر موجود دکاندار بھی انہی کی زبان میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک دکاندار ہیں تھیوڈس سگز، جو اس بازار میں ایک ٹھیلا لگاتے ہیں۔
تھیڈیوس سگز نے جو خود بھی قوت ِ سماعت سے محروم ہیں، اس تاریخی مارکیٹ میں گذشتہ برس ستمبر سے کام کرنا شروع کیا تھا۔
اس بازار میں کام شروع کرنے کے بعد سے 23 سالہ تھیڈیوس سگز اپنی یونیورسٹی سے رخصت پر ہیں۔ انکی یونیورسٹی گلاڈٹ یونیورسٹی دنیا کی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں کمزور قوت ِ سماعت اور قوت ِ گویائی والے افراد کو باقاعدہ تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔
تھیڈیوس سگز کا کہنا ہے کہ، ’اس مارکیٹ کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ مارکیٹ میری یونیورسٹی سے قریب ہے جو قوت ِ گویائی اور سماعت سے محروم افراد کے لیے کسی سرمایے سے کم نہیں۔ اسی وجہ سے ہم یہاں اس مارکیٹ میں نہ صرف عام کمیونٹی بلکہ بطور ِ خاص قوت ِ گویائی و سماعت سے محروم افراد کے کام بھی آ رہے ہیں‘۔
تھیڈیوس سگز ہونٹوں کی جنبش پڑھنے کا فن جانتے ہیں اور لوگوں کے ہونٹوں کی جنبش سے پہچان جاتے ہیں کہ سامنے والا شخص کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
تھیڈیوس سگز کے بارے میں ان کے باس روس مے ہوڈ کی رائے ہے کہ تھیڈیوس، لوگوں کی بات سمجھ کر ان سے گفتگو کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔ روس مے ہوڈ کہتے ہیں، ’سگز میرے سٹاف کے ایک بہترین ممبر ہیں۔ ہر روز ہماری دکان پر دس پندرہ ایسے افراد ضرور آتے ہیں جو سگز سے ہی ڈیل کرنا پسند کرتے ہیں‘۔
اس مارکیٹ میں تقریباً 10٪ ملازم قوت ِ گویائی سے محروم ہیں۔ لیکن یہاں پر ایسے افراد بھی بکثرت آتے ہیں جنہیں سماعت یا گویائی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ انہی میں سے ایک ہیں کیری باربن جو قوت ِ سماعت سے متاثرہ افراد کے لیے ایک قریبی ادارے میں کام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، ’مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ یہاں پر اشاروں میں بات کی جاتی ہے۔ میں بھی یہاں پر اشاروں کی زبان میں ہی اپنے لیے کھانے کا آرڈر دیتی ہوں‘۔
2012 میں امریکی ادارہ ِ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً اسّی لاکھ امریکی سماعت کے کسی نہ کسی مسئلے میں مبتلا ہیں۔
واشنگٹن کے اس حصے میں جہاں پر یہ بازار ’یونین مارکیٹ‘ قائم ہے، قوت ِ سماعت و گویائی سے متاثرہ لوگوں کو نوکری کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
یہ بازار ایسے ہی افراد کے لیے ایک خاص مقام بن گیا ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں لوگ آتے ہیں، خریداری کرتے ہیں اور کھانے پینے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قوت ِ سماعت یا گویائی سے محروم افراد کو یہاں پر کسی پریشانی یا دقت کا سامنا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پر موجود دکاندار بھی انہی کی زبان میں بات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک دکاندار ہیں تھیوڈس سگز، جو اس بازار میں ایک ٹھیلا لگاتے ہیں۔
تھیڈیوس سگز نے جو خود بھی قوت ِ سماعت سے محروم ہیں، اس تاریخی مارکیٹ میں گذشتہ برس ستمبر سے کام کرنا شروع کیا تھا۔
اس بازار میں کام شروع کرنے کے بعد سے 23 سالہ تھیڈیوس سگز اپنی یونیورسٹی سے رخصت پر ہیں۔ انکی یونیورسٹی گلاڈٹ یونیورسٹی دنیا کی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں کمزور قوت ِ سماعت اور قوت ِ گویائی والے افراد کو باقاعدہ تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔
تھیڈیوس سگز کا کہنا ہے کہ، ’اس مارکیٹ کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہ مارکیٹ میری یونیورسٹی سے قریب ہے جو قوت ِ گویائی اور سماعت سے محروم افراد کے لیے کسی سرمایے سے کم نہیں۔ اسی وجہ سے ہم یہاں اس مارکیٹ میں نہ صرف عام کمیونٹی بلکہ بطور ِ خاص قوت ِ گویائی و سماعت سے محروم افراد کے کام بھی آ رہے ہیں‘۔
تھیڈیوس سگز ہونٹوں کی جنبش پڑھنے کا فن جانتے ہیں اور لوگوں کے ہونٹوں کی جنبش سے پہچان جاتے ہیں کہ سامنے والا شخص کیا کہنا چاہ رہا ہے۔
تھیڈیوس سگز کے بارے میں ان کے باس روس مے ہوڈ کی رائے ہے کہ تھیڈیوس، لوگوں کی بات سمجھ کر ان سے گفتگو کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔ روس مے ہوڈ کہتے ہیں، ’سگز میرے سٹاف کے ایک بہترین ممبر ہیں۔ ہر روز ہماری دکان پر دس پندرہ ایسے افراد ضرور آتے ہیں جو سگز سے ہی ڈیل کرنا پسند کرتے ہیں‘۔
اس مارکیٹ میں تقریباً 10٪ ملازم قوت ِ گویائی سے محروم ہیں۔ لیکن یہاں پر ایسے افراد بھی بکثرت آتے ہیں جنہیں سماعت یا گویائی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ انہی میں سے ایک ہیں کیری باربن جو قوت ِ سماعت سے متاثرہ افراد کے لیے ایک قریبی ادارے میں کام کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ، ’مجھے یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ یہاں پر اشاروں میں بات کی جاتی ہے۔ میں بھی یہاں پر اشاروں کی زبان میں ہی اپنے لیے کھانے کا آرڈر دیتی ہوں‘۔
2012 میں امریکی ادارہ ِ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً اسّی لاکھ امریکی سماعت کے کسی نہ کسی مسئلے میں مبتلا ہیں۔
واشنگٹن کے اس حصے میں جہاں پر یہ بازار ’یونین مارکیٹ‘ قائم ہے، قوت ِ سماعت و گویائی سے متاثرہ لوگوں کو نوکری کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔