واشنگٹن —
امریکی حکومت نے خفیہ طور پر لاکھوں امریکی شہریوں کا ٹیلی فون ریکارڈ حاصل کرنے کے عمل کا دفاع کیا ہے۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ صارفین کے ٹیلی فون ریکارڈ تک رسائی "قوم کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے"۔
عہدیدار کے مطابق اس عمل کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق حکام کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ آیا معلوم یا مبینہ دہشت گرد ایسے لوگوں کے ساتھ تو رابطے میں نہیں جنہیں دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال کیا جاسکتا ہو۔
خیال رہے کہ برطانوی اخبار 'دی گارڈین' نے اپنی جمعرات کی اشاعت میں ایک امریکی عدالت کی جانب سے اپریل میں جاری کیا جانے والا ایک خفیہ حکم نامہ شائع کیا تھا۔ حکم نامے کے تحت امریکہ کی 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی' کو شہریوں کے ٹیلی فون ریکارڈ جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
عدالتی حکم نامے میں امریکہ کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی 'ویریزون' کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی جانب سے اندرون و بیرونِ ملک کی جانے والی کالز کا تمام ریکارڈ روزانہ کی بنیاد پر 'این ایس اے' کو جمع کرائے۔
حکم نامے میں کالز کے دوران میں ہونے والی گفتگو سے متعلق کوئی ہدایت درج نہیں ہے۔
برطانوی اخبار کی اس رپورٹ کے بعد امریکہ میں شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیموں نے اس مبینہ عدالتی حکم نامے اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے شہریوں کا ٹیلی فون ریکارڈ حاصل کرنے کے عمل پر کڑی تنقید کی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ عدالتی حکم شہریوں کی نگرانی کے متنازع قانون 'پیٹریاٹ ایکٹ' کی شق 215 کے تحت جاری کیا گیا ہے جو امریکی انٹیلی جنس اداروں کو شہریوں کی 'کاروباری دستاویزات' حاصل کرنے کا مجاز قرار دیتی ہے۔
'پیٹریاٹ ایکٹ' امریکہ پر 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے فوری بعد نافذ کیا گیا تھا تاکہ مشتبہ دہشت گردوں کی نگرانی کے لیے قانون نافذکرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافہ کیا جاسکے۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ صارفین کے ٹیلی فون ریکارڈ تک رسائی "قوم کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے"۔
عہدیدار کے مطابق اس عمل کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی سے متعلق حکام کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ آیا معلوم یا مبینہ دہشت گرد ایسے لوگوں کے ساتھ تو رابطے میں نہیں جنہیں دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال کیا جاسکتا ہو۔
خیال رہے کہ برطانوی اخبار 'دی گارڈین' نے اپنی جمعرات کی اشاعت میں ایک امریکی عدالت کی جانب سے اپریل میں جاری کیا جانے والا ایک خفیہ حکم نامہ شائع کیا تھا۔ حکم نامے کے تحت امریکہ کی 'نیشنل سیکیورٹی ایجنسی' کو شہریوں کے ٹیلی فون ریکارڈ جمع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
عدالتی حکم نامے میں امریکہ کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی 'ویریزون' کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے صارفین کی جانب سے اندرون و بیرونِ ملک کی جانے والی کالز کا تمام ریکارڈ روزانہ کی بنیاد پر 'این ایس اے' کو جمع کرائے۔
حکم نامے میں کالز کے دوران میں ہونے والی گفتگو سے متعلق کوئی ہدایت درج نہیں ہے۔
برطانوی اخبار کی اس رپورٹ کے بعد امریکہ میں شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیموں نے اس مبینہ عدالتی حکم نامے اور انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے شہریوں کا ٹیلی فون ریکارڈ حاصل کرنے کے عمل پر کڑی تنقید کی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ عدالتی حکم شہریوں کی نگرانی کے متنازع قانون 'پیٹریاٹ ایکٹ' کی شق 215 کے تحت جاری کیا گیا ہے جو امریکی انٹیلی جنس اداروں کو شہریوں کی 'کاروباری دستاویزات' حاصل کرنے کا مجاز قرار دیتی ہے۔
'پیٹریاٹ ایکٹ' امریکہ پر 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے فوری بعد نافذ کیا گیا تھا تاکہ مشتبہ دہشت گردوں کی نگرانی کے لیے قانون نافذکرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافہ کیا جاسکے۔