امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس پیر کو عراق کے غیر اعلانیہ دورے پر بغداد پہنچے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ امریکی فوج عراق کے "تیل پر قبضہ" کرنے کے لیے یہاں نہیں آئی۔
گزشتہ ماہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ان کا عراق کا یہ پہلا دورہ ہے جس کا مقصد امریکی حمایت یافتہ عراقی فورسز کی شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جاری کوششوں کو جائزہ لینا اور اس بارے میں حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔
تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکہ کے سفر کی پابندی کے حکم نامے اور عراق کے تیل پر قبضہ کرنے سے متعلق ان کے بیانات کے تناظر میں جم میٹس کو سخت سوالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ جاری کیے گئے حکم نامے کو امریکی وفاقی عدالتیں معطل کر چکی ہیں۔ عراق ان ملکوں میں شامل ہے جن کے شہریوں پر صدر ٹرمپ نے عارضی پابندی کا اعلان کیا تھا۔
ٹرمپ نے جنوری میں سی آئی اے کے دفتر کے دورے کے موقع پر خطاب میں کہا تھا کہ "ہم ان (عراق) کا تیل رکھ لینا چاہیے۔" انھوں نے یہ بات داعش کی طرف سے عراقی تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو روکنے کے تناظر میں کہی تھی۔
تاہم جب امریکی وزیردفاع کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ اس دورے میں عراق کے تیل پر تو بات نہیں ہونے جا رہی؟ تو میٹس نے اسے رد کرتے ہوئے کہا کہ "یہاں موجود ہم سب اور امریکہ میں لوگ عموماً تیل اور گیس کے لیے رقم ادا کرتے ہیں اور میرا خیال مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔۔۔ہم عراق میں کسی کے تیل پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہیں۔"
ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب عراق فورسز نے گزشتہ ماہ موصل کے مشرقی حصے کو داعش سے واگزار کروانے کے بعد اب مغربی حصے کا قبضہ حاصل کرنے کے لیے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
ان فورسز کو امریکہ کی زیرقیادت اتحادی افواج کی فضائی معاونت کے علاوہ امریکی فوجی مشیروں کی مدد بھی حاصل ہے۔