امریکہ کے ایک اعلٰی انٹلیجنس عہدیدار، منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کام نہیں کریں گے اور انہوں نے کانگریس کے ارکان کو بتایا کہ وہ اپنا استعفیٰ پیش کر چکے ہیں۔
امریکہ کی نیشنل انٹلیجنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس کے آغاز ہی میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا بتا کر وہاں موجود لوگوں کو حیران کر دیا۔
کلیپر نے قانون سازوں کو بتایا کہ"میں نے گزشتہ رات اپنے استعفیٰ کا خط پیش کیا (مجھے) یہ بہت اچھا لگا۔"
اس اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہو گئی کہ کلیپر آئندہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو ایک پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم انٹیلی جنس ادارے کے ایک ترجمان نےفوری طور پر ایسے خدشات کو کم کرنے کی کوشش کی۔
ترجمان نے کہا کہ"ڈی این اے (ڈائریکٹر نیشنل انٹلیجنس) نے اس خط پر اسی طرح دستخط کیے جیسا کہ انتظامیہ کے تمام عہدیدار کو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاہم وہ اپنی مدت (ملازمت) تک کام کریں گے۔"
ترجمان نے یہ سمجھانے کے لیے مزید کہا کہ کلیپر کا استعفیٰ اس دن "دوپہر 20 جنوری 2017" کو موثر ہو جائے گا جس دن منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھا لیں گے۔
کلیپر بہت پہلے سے اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اوباما انتظامیہ کے خاتمہ پر اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔
کلیپر کے استعفے کے اعلان پر ان لوگوں کو زیادہ حیرانی نہیں ہوئی ہے جو ٹرمپ کی عبوری ٹیم کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چھ سال تک کلیپر کے اپنے عہدے پر فائز رہنے کے بعد یہ ایک مناسب وقت ہے کہ اس ادارے میں نئی توانائی شامل کی جائے۔
ایوان نمائندگان کی انٹلیجنس کمیٹی کے ایک ڈیموکریٹک رکن ایڈم شف نے خبر رساں ادارے روئیڑز کو بتایا کہ کلیپر نے "ہمیشہ بردباری سے رائے دی اور ملک کے مفاد کو مقدم رکھا۔"
انہیں مارچ 2013 میں سینیٹ کے ایک سلیکٹ کمیٹی کے سامنے دیے جانے والے اپنے بیان کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ نے لاکھوں اپنے شہریوں سے متعلق معلومات "دانستہ طور پر نہیں"جمع کیں ہیں۔ تاہم اس بیان کے کئی ماہ کے بعد نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق کنڑیکٹر ایڈورڈ اسنوڈن نے ایسے شواہد کا انکشاف کیا کہ امریکہ نے بلاشبہ عام شہریوں کا بہت سارا ڈیٹا جمع کیا۔
جب کہ حال ہی میں امریکہ کی انٹلیجنس کے حلقوں نے کلیپر کی ہدایت پر ایک بہت ہی غیر معمولی اقدام اٹھاتے ہوئے ایک بیان جاری کیا جس میں روس پر کئی امریکی شہریوں اور ڈیموکریٹک پارٹی سمیت امریکی تنظمیوں کی ای میلز کو ہیک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔
ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے پہلے مہم کے دوران کئی ہفتوں تک اس دعویٰ پر کھلے عام اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔