رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وسط مدتی انتخاب میں ریپبلکن پارٹی کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے۔ کئی مہینوں سے ریپبلکنز میں، خاص طور سے قدامت پسندوں میں اس سال کے انتخاب کے بارے میں جوش و خروش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اُمید ہے کہ ان کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے آئے گی۔ ایسی صورت میں، صدر براک اوباما اور چوٹی کے دوسرے ڈیموکریٹس طوفانی دورے پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ ڈیموکریٹس کے ان گروپوں میں جنھوں نے دو برس قبل صدارتی انتخاب میں نمایاں کردارادا کیا تھا، ایک بار پھر وہی جذبہ بیدار کریں۔ صدر اوباما نے کہا ہے کہ ’’جیسا کہ آپ نے 2008ء میں کیا تھا، آپ ایک بار پھر لوگوں کے اندازے غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو یہ مقصد ضرور حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ کی کئی نشستوں میں فرق کم ہوتا جا رہا ہے جس سے ڈیموکریٹس کی ہمت افزائی ہوئی ہے۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں ریپبلکنز کو بہت سی نشستیں مِل جائیں گی اور بہت سوں نے پیش گوئی کر دی ہے کہ وہ مزید 39 نشستیں حاصل کر لیں گے جو ایوان ِ نمائندگان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیےدرکار ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے حامی گروپوں پر انحصار کرتی ہیں جو اپنی پارٹی کے وفا دار رہتے ہیں۔
Mike O’Brien واشنگٹن میں اخبار The Hill کے نمائندے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس کی توجہ ووٹروں کے انھی گروپوں کی طرف ہے جنھوں نے انھیں دو سال قبل فتح سے ہمکنار کیا تھا۔ ان کے مطابق ’’یہ ووٹرز نوجوان ہیں۔ انھوں نے پہلی بار 2008ء میں ووٹ ڈالا تھا۔ ان میں خواتین ووٹرز ہیں، اقلیتی کمیونٹیوں سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ 2008ء میں یہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا‘‘۔
اس انتخاب میں ڈیموکریٹس کے لیے خواتین ووٹرز خاص طور سے بہت اہم ہیں۔ امریکہ کی آبادی میں عورتوں کی اکثریت ہے اور تاریخی اعتبار سے وہ ڈیموکریٹس کی حامی رہی ہیں۔ لیکن ویب سائٹ Politico کے Andy Barr کہتے ہیں کہ اس سال حالات مختلف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اعتدال پسند عورتوں کے ووٹ کسی بھی طرف جا سکتے ہیں۔ آخری انتخاب میں ان کی بڑی تعداد میں اوباما کو ووٹ دیا تھا اور اس سے ڈیموکریٹس کو فائدہ ہوا۔ اب رائے عامہ کے جائزوں سے ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کا جھکاؤ ریپبلکنزکی طرف ہے۔ ڈیموکریٹس ہرممکن کوشش کر رہے ہیں کہ اعتدال پسند عورتیں ان کے ساتھ ہی رہیں‘‘۔
ریپبلکنز یہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ سفید فام ووٹرز، مرد اور نسبتاً بڑی عمر کے ووٹرز بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے آئیں گے اور دو نومبر کو انھیں کامیابی کی منزل پر لے جائیں گے۔ اس سال ان گروپوں نے خاص طور سے ٹی پارٹی تحریک کا اثر قبول کیا ہے۔ یہ لوگ حکومت کا عمل دخل اور ٹیکس کم رکھنا چاہتے ہیں۔ Marco Rubio ریاست فلوریڈا میں امریکی سینیٹ کی ایک نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انھیں ٹی پارٹی کی تحریک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم پہلی بار امریکیوں کی وہ نسل بننے والے ہیں جو اگلی نسل کو نسبتاً بد تر حالت میں چھوڑے گی‘‘۔
ویب سائٹ Politico کے Andy Barr کہتے ہیں کہ اس سال سفید فام مرد ووٹرز اور معمر ووٹرز میں جوش و جذبہ سب سے زیادہ ہے اور یہ گروپ پورے ملک میں بڑی تعداد میں ریپبلکنز کو ووٹ دیں گے۔ ان کے مطابق ’’اس سے پہلے، اس گروپ کے لوگوں کی بڑی تعداد نے براک اوباما کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن اب سفید فام مردوں اور بوڑھے ووٹروں کی بھاری تعداد ریپبلکنز کو ووٹ دے رہی ہے‘‘۔
اس سال امریکی کانگریس کے انتخابات کے علاوہ، 50 میں سے37 ریاستوں میں گورنر کا انتخاب بھی ہو گا۔