2020 صدارتی الیکشن کی مہم کے آخری دنوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن نے اپنی تمام تر توجہ اُن ریاستوں پر مرکوز کر رکھی ہے جنہیں نتیجے کے حوالے سے فیصلہ کن قراردیا جا رہا ہے۔
ان فیصلہ کن ریاستوں میں دو ریاستیں پینسلونیا اور فلوریڈا، دو سب سے بڑی سوئنگ سٹیٹس ہیں جن کے بارے میں حتمی طور پر یہ کہنا کہ یہ ری پبلکن یا ڈیموکریٹک جماعت کے حق میں جائیں گی مشکل ہے۔ اور گزشتہ کئی انتخابات میں ان ریاستوں کے ووٹروں نے امریکی صدر کے چناؤ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق کرونا بحران کے باعث پیدا ہوئے غیر معمولی حالات میں ہونے والے اس صدارتی انتخاب میں ریاست اوہائیو، نارتھ کیرولائنا، جارجیا اور ایری زونا میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
دونوں امیدواروں نے کچھ ہفتوں سے ریاست پینسلوانیا میں جلسے کئے تاکہ اس ریاست کے ابھی تک فیصلہ نہ کر پانے والے ووٹروں کی حمایت حاصل کر سکیں۔
پینسلوانیا کے 20 الیکٹورل ووٹ ہیں جو کہ کسی بھی امیدوار کے لیے 270 الیکٹرول ووٹوں کا ہدف حاصل کرنے کے سلسلے میں بہت اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ امریکہ میں صدر براہ راست عوامی ووٹ کی بجائے اِن ووٹوں سے منتخب ہونے والے 538 الیکٹورل ووٹوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔
صدر ٹرمپ جو 2016 میں اس ریاست میں کامیاب ٹھہرے تھے، یہاں پر بسنے والی برادریوں اور دیہی علاقوں پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ ولکس بار سکرنٹن کے بین الااقوامی ایئرپورٹ پر ایک جلسہ جبکہ جو بائیڈن نے ،پٹسبرگ میں گاڑیوں میں بیٹھے ووٹروں سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹرمپ نے اپنے مدمقابل بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ کبھی اپنے تہہ خانے سے نہیں نکلتے۔ انہوں نے بائیڈن کی نائب صدارت کے دوران ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ وائٹ ہاؤس کے دور میں امریکی معیشت کی کارکردگی کو اپنے ایک مضبوط پوائنٹ کے طور پر پیش کیا ہے۔
دوسری طرف بائیڈن نے پینسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ پر کرونا بحران سے نمٹنے میں ان کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بائیڈن اکثر اس بات کو دہراتے ہیں کہ اس بحران کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے بچاؤ کے مناسب اقدامات نہ کئے اور اب تک دو لاکھ 36 ہزار امریکی اس عالمی وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔جب کہ اس وائرس نے 90 لاکھ امریکیوں کی صحت کو متاثر کیا۔ اس کے علاوہ وہ نسلی امتیاز اور ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر بھی صدر ٹرمپ پر تنقید کرتے ہیں۔
اب تک لیے گئے سروے اور عوامی آرا کے جائزے بتاتے ہیں کہ بائیڈن عوامی ووٹ لینے میں صدر کے مقابلے میں سبقت رکھتے ہیں جب کہ تازہ ترین رپورٹس بتاتی ہیں کہ ٹرمپ نے پچھلے کچھ روز میں اپنی کارکردگی میں نمایاں بہتری دکھائی ہے اور الیکٹورل ووٹ کے تناظر میں وہ زیادہ پرامید نظر آتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے پاکستانی امریکی برادری میں متحرک دونوں پارٹیوں سے وابستہ سیاست دانوں سے تازہ ترین رجحانات جاننے کے لیے ان کی آرا معلوم کیں۔
ریاست میری لینڈ میں مقیم صدر ٹرمپ کے حمائتی سیاست دان ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ قومی میڈیا صدر ٹرمپ کے خلاف رائے قائم کرتا ہے۔ اخباروں میں اور ٹی وی چینلوں پر کئی ہفتوں سے یہ دکھایا جا رہا تھا کہ ووٹ بہت حد تک بائیڈن کے حق میں جا رہا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اب صورت حال خاصی مختلف ہے۔
وہ کہتے ہیں:
میں نے پینسلوانیا اور دیگر جگہوں پر جو معروضی حالات دیکھے، ان کے مطابق صدر ٹرمپ کہیں بہتر نظر آتے ہیں اور اب تو سی این این نے بھی کہہ دیا ہے کہ دونوں امیدواروں کے کامیابی کے راستے نظر آتے ہیں۔
میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ صدر ٹرمپ کو ریاست پینسلوانیا میں دیہی علاقوں میں جب کہ فلوریڈا میں ریٹائرڈ لوگوں میں سے اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
مسلمز فار امیریکہ نامی نتظیم کے بانی ساجد تارڑ اس تنقید کو مسترد کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ امریکہ کی اقلیتی یا کثیرالثقافتی برادریوں کے حق میں اچھے نہیں رہے۔
تمام امریکی برادریوں میں صدر ٹرمپ کے دور میں بے روزگاری تاریخی طور پر کم ترین سطح پر رہی۔ اور اب تو نیویارک جیسے شہر میں بھی صدر ٹرمپ کے حق میں پاکستانی امریکیوں کا ایک گروپ بن گیا ہے۔
دوسری جانب ریاست نیو جرسی کے شہر منٹگمری کی میئر صدف جعفر کہتی ہیں کہ جو بائیڈن کے حق میں ایک واضح عوامی جھکاؤ نظر آرہا ہے۔ ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
وہ کہتی ہیں:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس سال کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت بلند جا رہی ہے۔ اور ایسا جب بھی ہوتا ہے تو ڈیموکریٹک امیدوار کو فائدہ ملتا ہے۔ دوسری یہ بات ہے کہ 2016 کے مقابلے میں اس سال امریکہ بھر میں لاکھوں نئے ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور ان کا رجحان بائیڈن کی طرف زیادہ ہے۔
انہوں نے صدر ٹرمپ کی کرونا وبا سے نمٹنے کی کارکردگی کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ان پرتنقید کو دہرایا اور کہا کہ عوام کے لئے یہ صحت عامہ کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور ووٹر اس کو سامنے رکھ کر ڈیموکریٹک پارٹی کو ترجیح دیں گے۔
صدف جعفر نے یہ بھی کہا کہ بائیڈن کا امریکہ میں بسنے والی مختلف برادریوں کے بارے میں ایجنڈا، صدر ٹرمپ سے کہیں بہتر ہے اور ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے امریکی ووٹر ڈیموکریٹک امیدوار کو صدر منتخب کرنا چاہیں گے۔
الیکشن کی شام تک فلوریڈا سے آنے والی اطلاعات کے مطابق 29 الیکٹورل ووٹوں کی اس ریاست میں ایک انتہائی سخت مقابلہ ہو گا۔ فلوریڈا کے علاوہ جارجیا اور نارتھ کیرولائنا کے کل ملا کرے 31 الیکٹورل ووٹ بنتے ہیں،جو الیکشن کے فیصلہ کن نتائج کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
2020 کے الیکشن کا ایک اہم پہلو ارلی ووٹنگ میں ریکارڈ سطح پر ووٹ ڈالنے کی شرح ہے۔ یونیورسٹی آف فلوریڈا کے امریکی الیکشن کے ایک پراجیکٹ کے مطابق الیکشن سے ایک روز قبل یعنی پیر کے روز تک ساڑھے نو کروڑ امریکی اپنا ووٹ ڈال چکے تھے۔ ان ووٹوں میں ایک بڑی تعداد ڈاک کے ذریعہ ارسال کیے گئے بیلٹس کی ہے۔
امریکہ کی مختلف ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے ارسال کیے گئے ووٹوں کی منظوری کے مختلف شیڈول ہیں اور ماہرین نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ کہ کانٹے کے مقابلے کی صورت میں ووٹوں کی گنتی انتخابات کے نتائج میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ اس معاملے پر اپنی مہم میں اس تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں کہ ڈاک کے ذریعہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے جانے سے الیکشن فراڈ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کچھ ریاستوں میں الیکشن کے دن کے بعد موصول ہونے والے بیلٹ کو بھی شمار کرنے پر اعتراض کیا ہے اور عندیہ دیا ہے کہ ریاست پینسلوانیا میں ووٹروں کے ایبسینٹی بیلٹ یعنی غیر حاضر رہ کر ووٹ ڈالنے کے معاملے پر قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
دوسری طرف ان کے مقابل بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو یہ الیکشن چوری کرنے نہیں دیں گے اور عوام پر زور دیا کہ کرونا وائرس کو شکست دینے کے لیے ٹرمپ کو شکست دینا ضروری ہے۔
2016 کے مقابلے میں 2020 کے الیکشن کا ایک دلچسب پہلو یہ ہو گا کہ انتخابات سے قبل کیے گئے سروے اور عوامی آرا پر مبنی پولز کہاں تک درست ثابت ہوں گے کیونکہ پچھلے الیکشن میں تقریباً تمام تر سروے ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کو جیت کی طرف جاتا دکھا رہے تھے جب کہ صدر ٹرمپ نے اس میں فتح حاصل کی۔