بوڈا پسٹ، ہنگری —
وسطی اور مشرقی یورپ کے سابق کمیونسٹ ممالک سوچ رہے ہیں کہ ایسے وقت میں جب ان کا اقتصادی مستقبل غیر یقینی ہے، امریکہ کے صدر براک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کا ان پر کیا اثر پڑے گا۔
ہنگری کے نائب وزیرِ اعظم نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اب ان ملکوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے جو کبھی سابق سوویت یونین کے طفیلی تھے۔
امریکی انتخاب کی شب بوڈاپیسٹ میں ہنگری کے لوگ، امریکی شہری اور دوسرے لو گ بڑئ تعداد میں جمع تھے۔ انتخاب سے متعلق اس اجتماع میں ہنگری کی ایئر فورس کا بینڈ امریکی کلاسک دھنیں بجا رہا تھا ۔
ہنگری کے دارالحکومت کے ایک شاندار ہوٹل کے بال روم میں تقریباً 1,500 مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دیواروں پر صدارتی امیدواروں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں اور وائٹ ہاؤس کے اوول آفس کا ایک نمونہ بھی رکھا ہوا تھا۔
ہنگری اب بھی نو خیز جمہوریت ہے۔ لوگوں نے بڑے شوق سے ٹیلیویژن اسکرینوں پر انتخاب کے نتائج دیکھے جن سے بالآخر واضح ہو گیا کہ اس انتخاب میں صدر براک اوباما کو واضح طور پر فتح حاصل ہو گئی ہے ۔
اگرچہ ہنگری اور وسطی و مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں کے لیڈروں نے ان کے دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغام بھیجے، لیکن صدر اوباما کی کامیابی کے جشن پر تشویش غالب آ گئی۔
ہنگری کے نائب وزیرِ اعظم تیبور ناوراکسکس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ صدر ہنگری اور دوسرے ملکوں پر جن پر کئی عشروں تک سوویت فورسز کا قبضہ رہا، زیادہ توجہ دیں گے۔ ان ملکوں کو روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہے۔
’’میرے خیال میں امریکی خارجہ پالیسی کی نظر میں وسطی یورپ کے ملکوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی کے تحقیقی ادارےاور تجزیہ کار سوچتے ہیں کہ وسطی یورپ بالکل محفوظ علاقے میں واقع ہے اور اسے ممکنہ روسی اثرات کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہم لوگوں کا خیال اس سے مختلف ہے۔‘‘
ہنگری کو جن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ان میں ایسی امریکی سرمایہ کاری شامل ہے جسے امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ ہنگری کو مالی بحران کا سامنا ہے اور وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور یورپی یونین سے 19 ارب ڈالر کی رقم کی مالی امداد کے لیے مذاکرت کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔
ناوارکسکس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کےخیال میں 2013 کے شروع میں ایک سودے پر دستخط ہو جائیں گے اگرچہ ہنگری اور ان تنظیموں کے درمیان کشیدگی موجود ہے جن کا مطالبہ ہے کہ ہنگری سرکاری اخراجات کم کر ے اور بینکوں اور غیر ملکی کمپنیوں پر متنازع ٹیکس ختم کرے۔
ہنگری ان کئی سابق کمیونسٹ ملکوں میں شامل ہے جو یورپی یونین کے رکن ہیں اور جو امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا مطالبہ کر رہےہیں ۔
یورپی پارلیمینٹ کے صدر مارٹن شلز نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ وہ بدھ کے روز بیلارُس کے سیاسی قیدیوں کی بیویوں سے ملے۔ انھوں نے کہا’’گذشتہ دو سے تین برسوں میں، کبھی کبھی ہمیں یہ احساس ہوا ہے جیسے یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان تعلق کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔ براک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے سے، ان کے پروگرام کی بنیاد پر، ہم سب کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کیوں کہ ہمارے مشترکہ مفادات میں، آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں، اور امن، انصاف اور دنیا بھر میں اقتصادی ترقی میں، ہمارے درمیان زیادہ تعاون ہو گا۔‘‘
لیکن پولینڈ کے وزیرِ خارجہ زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ ایسا فوری طور پر ممکن ہو گا ۔ انھوں نے پولینڈ کے ایک ریڈیو اسٹیشن سے کہا کہ توقع ہے کہ انتخاب میں کامیابی کے بعد صدر اوباما کی بیشتر توجہ مشرقِ وسطیٰ پر رہے گی۔
وزیرراڈک سیکورسکی نے ایک بیان میں کہا کہ روایتی طور پر، دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے صدور، خاص طور سے جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہوتا ہے، اسرائیلی فلسطینی تنازع کو طے کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ مسٹر اوباما نے پہلے ہی ایک فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن سابق مشرقی بلاک کے ملکوں کے لیڈروں کو امید ہے کہ صدر اوباما ان کے پُر آشوب علاقے کو، جسے حال ہی میں آزادی ملی ہے، اپنے مصروف چار سالہ شیڈول میں ضرور شامل کریں گے ۔
ہنگری کے نائب وزیرِ اعظم نے وائس آف امریکہ سے کہا کہ تشویش یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اب ان ملکوں کی اہمیت کم ہو گئی ہے جو کبھی سابق سوویت یونین کے طفیلی تھے۔
امریکی انتخاب کی شب بوڈاپیسٹ میں ہنگری کے لوگ، امریکی شہری اور دوسرے لو گ بڑئ تعداد میں جمع تھے۔ انتخاب سے متعلق اس اجتماع میں ہنگری کی ایئر فورس کا بینڈ امریکی کلاسک دھنیں بجا رہا تھا ۔
ہنگری کے دارالحکومت کے ایک شاندار ہوٹل کے بال روم میں تقریباً 1,500 مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دیواروں پر صدارتی امیدواروں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں اور وائٹ ہاؤس کے اوول آفس کا ایک نمونہ بھی رکھا ہوا تھا۔
ہنگری اب بھی نو خیز جمہوریت ہے۔ لوگوں نے بڑے شوق سے ٹیلیویژن اسکرینوں پر انتخاب کے نتائج دیکھے جن سے بالآخر واضح ہو گیا کہ اس انتخاب میں صدر براک اوباما کو واضح طور پر فتح حاصل ہو گئی ہے ۔
اگرچہ ہنگری اور وسطی و مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں کے لیڈروں نے ان کے دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد کے پیغام بھیجے، لیکن صدر اوباما کی کامیابی کے جشن پر تشویش غالب آ گئی۔
ہنگری کے نائب وزیرِ اعظم تیبور ناوراکسکس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ صدر ہنگری اور دوسرے ملکوں پر جن پر کئی عشروں تک سوویت فورسز کا قبضہ رہا، زیادہ توجہ دیں گے۔ ان ملکوں کو روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش ہے۔
’’میرے خیال میں امریکی خارجہ پالیسی کی نظر میں وسطی یورپ کے ملکوں کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی کے تحقیقی ادارےاور تجزیہ کار سوچتے ہیں کہ وسطی یورپ بالکل محفوظ علاقے میں واقع ہے اور اسے ممکنہ روسی اثرات کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ہم لوگوں کا خیال اس سے مختلف ہے۔‘‘
ہنگری کو جن چیزوں کی اشد ضرورت ہے ان میں ایسی امریکی سرمایہ کاری شامل ہے جسے امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ ہنگری کو مالی بحران کا سامنا ہے اور وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور یورپی یونین سے 19 ارب ڈالر کی رقم کی مالی امداد کے لیے مذاکرت کرنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔
ناوارکسکس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کےخیال میں 2013 کے شروع میں ایک سودے پر دستخط ہو جائیں گے اگرچہ ہنگری اور ان تنظیموں کے درمیان کشیدگی موجود ہے جن کا مطالبہ ہے کہ ہنگری سرکاری اخراجات کم کر ے اور بینکوں اور غیر ملکی کمپنیوں پر متنازع ٹیکس ختم کرے۔
ہنگری ان کئی سابق کمیونسٹ ملکوں میں شامل ہے جو یورپی یونین کے رکن ہیں اور جو امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کا مطالبہ کر رہےہیں ۔
یورپی پارلیمینٹ کے صدر مارٹن شلز نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ وہ بدھ کے روز بیلارُس کے سیاسی قیدیوں کی بیویوں سے ملے۔ انھوں نے کہا’’گذشتہ دو سے تین برسوں میں، کبھی کبھی ہمیں یہ احساس ہوا ہے جیسے یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان تعلق کمزور پڑتا جا رہا ہے ۔ براک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے سے، ان کے پروگرام کی بنیاد پر، ہم سب کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کیوں کہ ہمارے مشترکہ مفادات میں، آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں، اور امن، انصاف اور دنیا بھر میں اقتصادی ترقی میں، ہمارے درمیان زیادہ تعاون ہو گا۔‘‘
لیکن پولینڈ کے وزیرِ خارجہ زیادہ پر امید نہیں ہیں کہ ایسا فوری طور پر ممکن ہو گا ۔ انھوں نے پولینڈ کے ایک ریڈیو اسٹیشن سے کہا کہ توقع ہے کہ انتخاب میں کامیابی کے بعد صدر اوباما کی بیشتر توجہ مشرقِ وسطیٰ پر رہے گی۔
وزیرراڈک سیکورسکی نے ایک بیان میں کہا کہ روایتی طور پر، دوسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے صدور، خاص طور سے جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہوتا ہے، اسرائیلی فلسطینی تنازع کو طے کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ مسٹر اوباما نے پہلے ہی ایک فلسطینی ریاست کے قیام میں مدد کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن سابق مشرقی بلاک کے ملکوں کے لیڈروں کو امید ہے کہ صدر اوباما ان کے پُر آشوب علاقے کو، جسے حال ہی میں آزادی ملی ہے، اپنے مصروف چار سالہ شیڈول میں ضرور شامل کریں گے ۔