یونیورسٹی آف ورجینیا کے سیاسی تجزیہ کار لیری سباتو ایک ہفتہ وار نیوز لیٹر’دی کرسٹل بال‘ شائع کرتے ہیں جس میں وہ انفرادی انتخابی مقابلوں کے نتائج کی پیشگوئی کرتےہیں۔
سباتونے کہا ہے کہ ملک بھر میں امیدواروں کی طرف سے سیاسی اشتہارات اور انتخابی مہموں پر تقریباً چار ارب ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود انھوں نے چند مہینے پہلے جو پیشگوئیاں کی تھیں وہ تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔سباتو کی پیشگوئی یہ ہے کہ ریپبلیکنز ایوانِ نمائندگان میں 55 نشستیں جیت لیں گے جب کہ انہیں اکثریت حاصل کرنے کے لیے صرف 39 نشستوں کی ضرورت ہے ۔ ’’در حقیقت یہ ایسا انتخاب ہے جس کا فیصلہ معیشت کی خراب حالت اور صدر اوباما کی کارکردگی کے بارے میں خراب رائے کی وجہ سے گذشتہ گرمیوں میں ہی ہو چکا تھا۔ سیاست میں کچھ بنیادی چیزیں ہوتی ہیں جن سے انتخابات کا رُخ متعین ہوتا ہے اور یہ چیزیں اگست تک ظاہر ہو چکی تھیں۔ سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ ایوان نمائندگان ریپبلیکنز کو چلا جائے گا لیکن اب ہر غیر جانب دار ایجنسی نے یہی فیصلہ د ے دیا ہے‘‘ ۔
سباتو اور دوسرے ماہرین پیشگوئی کر رہے ہیں کہ سینٹ پر ڈیموکریٹک کنٹرول برقرار رہے گا لیکن ان کی اکثریت برائے نام باقی رہ جائے گی۔ ہفتہ وار میگزین کانگریشنل کوارٹرلی کے مینیجنگ ایڈیٹر ڈیوڈ ہاکنگز کہتے ہیں کہ سینٹ پر اپنا کنٹرول بحال کرنے کے لیے ریپبلیکنز کو وہ تمام دس نشتیں جیتنی ہوں گی جن پر وہ ڈیموکریٹس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ تمام نشتیں جیتنا ممکن نہیں ہوتا اور آخری دنوں میں ان کا کوئی ایک امید وار پیچھے رہ جاتا ہے ۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سیاسی فضا میں سخت اضطراب اور بے چینی موجود ہے ۔ بہت سے مقابلوں میں ووٹرز پرانے سیاست دانوں سے جان چھڑانے کے لیے سیاسی نوواردوں کو قبول کرنے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں ۔تحقیقی ادارے انڈیپینڈنٹ وومینز فورم کی مشیل برناڈ کہتی ہیں کہ غیر جانبدار ووٹرز کے ایک حالیہ سرو ے سے پتہ چلا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے بارے میں حقارت اورنا پسندیدگی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ’’یہ ایسا مقابلہ حسن ہے جس میں شرکت کرنے والے تمام لوگ بد صورت ہیں۔ انہیں نہ ڈیموکریٹس پسند ہیں نہ ریپبلیکنز۔ محض اتفاق ہے کہ سر دست ان کا جھکاو ریپبلیکنز کی طرف ہے۔ و ہ ریپبلیکنز کو ووٹ دے رہے ہیں ، اس لیے نہیں کہ انہیں ریپبلیکنز پسند ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ڈیموکریٹس کے خلاف ہیں۔ اور میرے خیال میں نومبر کے انتخاب کی سب سے زیادہ خاص بات یہی ہوگی‘‘۔
ریاست نیواڈا میں سینٹ کی نشست پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں سینٹ کے ڈیموکریٹک اکثریتی لیڈر ہیری ریڈ اور ان کی ریپلیکن حریف Sharron Angle کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہورہا ہے ۔ Sharron Angle ٹی پارٹی کے ریپبلیکنز کی پسندیدہ امید وار ہیں۔
ٹی پارٹی کے حامی حکومت کے رول کو محدود کرنے،طاقتور فوج رکھنے اور ٹیکسوں کو کم رکھنا چاہتے ہیں۔ Angleریاست نیواڈا کی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں لیکن ایوان نمائندگان کے مقابلے میں انہیں شکست ہوئی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران وہ رپورٹروں سے بچتی رہی ہیں ۔ انھوں نے صرف قدامت پسند کرسچین نیٹ ورکس کو انٹر ویو دیے ہیں اور ان کے اس بیان سے کہ ریٹائڑد امریکیوں کو سوشل سیکیورٹی سے جو ماہانہ آمدنی ہوتی ہے اسے پرائیویٹ شعبے کو دے دیا جائے، بعض لوگوں میں خطرے کے لہر دوڑ گئی ہے ۔
تجزیہ کار لیری سباتو نے کہا ہے کہ جن امید واروں کو ٹی پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے ان کا رجحان بیشتر امریکیوں کے مقابلے میں زیادہ دائیں جانب ہے۔ ’’اس انتخابی مہم سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ کانگریس میں ٹی پارٹی کے کچھ ارکان خاص طور سے سینٹ میں ، ریپبلکینز کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں۔ سینٹ میں انہیں کسی حد کے بغیر اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہے‘‘ ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کانگریس میں ریپبلیکن ارکان کا ٹی پارٹی ریپبلیکنز سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے، لیکن ریپبلیکن اقلیتی لیڈر Mitch McConnell کہتے ہیں کہ کانگریس میں ریپبلیکن ارکان کی بڑھی ہوئی تعداد سے نمٹنا ان کے لیے ایسا مسئلہ ہوگا جس کا وہ خیر مقدم کریں گے۔
صدر اوباما گذشتہ چند ہفتوں کے دوران ڈیموکریٹک امیدواروں کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے پوری قوت سے انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔