امریکہ کے محکمہ دفاع اور خارجہ کے لیے سامان لے جانے والے دو امریکی پرچم بردار بحری جہازوں پر بدھ کے روز یمن کے حوثی باغیوں نے حملے کیے۔ حکام نے بتایا ہےکہ امریکی بحریہ نے ان حملوں کو ناکام بنا دیا۔
کنٹینر بحری جہاز مارسک ڈیٹرائٹ اور مارسک چیسپیک پر حوثی باغیوں کے ان حملوں سے آبنائے باب المندب کے علاقے میں بحری جہاز رانی حملوں کی زد میں آ گئی ہے۔
حوثیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ نے متعدد فضائی حملے کیے ہیں۔
دریں اثنا، قطر نے، جودنیا میں مائع قدرتی گیس کے سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے، خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ سے منسلک حوثی حملوں سے اس کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کی جہاز راں کمپنی مارسک نے اپنے ایک بیان میں حملوں کی زد میں آنے والے اپنے دو جہازوں کی شناخت امریکی پرچم بردار کنٹینر مارسک ڈیٹرائٹ اور مارسک چیسپیک کے طور پر کی ہے۔
اس نے کہا ہے حملوں کے وقت امریکی بحریہ ان بحری جہازوں کے ساتھ تھی۔
مارسک نے کہا کہ اس راستے پر سفر کے دوران دونوں جہازوں نے قریب ہونے والے دھماکوں کی اطلاع دی اور یہ کہ حفاظت کے لیے ساتھ چلنے والی امریکی بحریہ نے ان حملوں کو روکا۔
مارسک کا کہنا ہے کہ دونوں بحری جہاز، ان کا عملہ اور جہازوں پر موجود سامان محفوظ رہا۔
امریکی بحریہ نے دونوں جہازوں کا رخ موڑ دیا ہے اور وہ انہیں خلیج عدن کی طرف لے جا رہی ہے۔
مارسک نے کہا ہے کہ دونوں بحری جہازوں میں امریکہ کے محکمہ دفاع اور خارجہ سمیت دیگر سرکاری ایجنسیوں کا سامان بھی جا رہا تھا، جس کی وجہ سے انہیں آبنائے سے گزرنے کے لیے امریکی بحریہ کا تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔
کمپنی نے کہا کہ ان بحری جہازوں کو مارسک لائنز چلاتی ہے جو مارسک کی ایک امریکی ذیلی کمپنی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اگلے اعلان تک اس علاقے میں اپنا سفر معطل کر رہی ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے اپنے ایک آن لائن بیان میں حوثیوں کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جہازوں کو تباہ کرنے والے تین بیلسٹک میزائل فائر کیے تھے۔
بیان میں کہاگیا ہے کہ ایک میزائل سمندر میں گرا، جب کہ دیگر دو میزائلوں کو امریکی فوج نے مار گرایا۔
سینٹڑل کمان نے اے پی کی جانب سے بھیجے گئے مزید سوالات کا جواب نہیں دیا۔
حوثیوں نے، جنہوں نے اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کے ردعمل میں نومبر سے بحری جہازوں پر حملے شروع کیے تھے، فوری طور پر اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
نومبر کے بعد سے حوثی باغیوں نے یہ کہتے ہوئے متعدد بار بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کو نشانہ بنایا ہے کہ وہ حماس کے خلاف غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کا بدلہ لے رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اکثر ایسے بحری جہازوں کو ہدف بنایا ہے جن کا اسرائیل سے کوئی واضح تعلق نہیں تھا۔
حوثیوں کے حملوں سے عالمی تجارت کی اس اہم بحری گزرگاہ میں جہاز رانی کے لیے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ نے حوثیوں کے حملوں میں استعمال ہونے والے مشتبہ میزائلوں کے ذخیروں اور لانچنگ سائٹس کو ہدف بناتے ہوئے فضائی حملے شروع کیے ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ امریکی اور برطانوی جہازوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔
قطر نے کہا ہے کہ حوثیوں کے حملوں سے اس کی مائع قدرتی گیس کی ترسیل متاثر ہوئی ہے اور خلیج عدن اور بحیرہ احمر سے بھیجا جانے والا اس کا تجارتی سامان منزل مقصو پر تاخیر سے پہنچاہے۔
قطر کے کسی بحری جہاز پر ابھی تک کوئی حملہ نہیں ہوا اور اس کی سرکاری ملکیت والی توانائی کی کمپنی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کی پیداوار بلا کسی تعطل کےجاری ہے، اور وہ اپنے صارفین کو ایل این جی کی قابل اعتماد فراہمی یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
قطر نے حماس اور اسرائیل کے اس تنازعے میں دونوں فریقوں کےدرمیان ایک اہم ثالث کے طور پر کام کیا ہے۔
قطر انرجی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ احمر کے علاقے کی صورت حال کی وجہ سے اس کے سامان بھیجنے کے کچھ شیڈول متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ انہیں متبادل راستے اختیار کرنے پڑ رہے ہیں۔
بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قطر انرجی کے کارگو اب افریقہ کے کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد سفر کر رہے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر بحری جہازوں کے سفر کے وقت کا اضافہ ہو گا۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم