لاس اینجلس —
امریکی کی ریاست کنیٹی کٹ کے ایک اسکول میں گولیاں چلائے جانے کے واقعے کے بعد یہ سوالات پھر پیدا ہوئے ہیں کہ اس قسم کے واقعات میں پُر تشدد میڈیا کا رول کیا ہے۔
ہالی وڈ میں بھی لوگ اسی قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں، لیکن مار دھاڑ کے مناظر ہالی وڈ کی ایکشن فلموں کا لازمی جزو ہیں، اور مستقبل قریب میں ان کے غائب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
’جی آئی جو: ریٹیلیی ایشن‘ اس قسم کی فلم ہے جو ایکشن، لڑائی اور دھماکوں سے بھر پور ہے۔ ایسی فلمیں نوجوانوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں اور ہالی وڈ کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
تفریح کی صنعت کے رسالے ورائٹی کے ٹم گرے کہتے ہیں کہ پُر تشدد تفریح کے بارے میں بحث اس رسالے کی ابتدا یعنی 100 برس بلکہ اس سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’در اصل یہ بحث دو ہزار سال سے جاری ہے۔ اگر آپ ان ڈراموں پر، ان یونانی المیوں پر نظر ڈالیں جو یونانیوں نے تحریر کیے تھے، اگر آپ کو لیسیم میں گلیڈی ایٹرز کا تصور کریں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تشدد اور تفریح کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ تھا۔ لیکن اب تشدد زندگی کے ہر پہلو پر غالب آ گیا ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
ایلفرڈ ہچکاک کی فلم سائیکو کا وہ منظر جس میں شاور کے دوران چاقو مارتے دکھایا گیا ہے، بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا۔ 1960ء کی اس لاجواب فلم میں یہ ایک مختصر سا منظر تھا جس میں کہانی کے بیان کے لیے مکالمے پر انحصار کیا گیا تھا۔
سلوسٹر اسٹالون کی عنقریب ریلیز ہونے والی فلم بلٹ ٹو دی ہیڈ میں ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایکشن کا سہارا لیا گیا ہے۔
سائنس فکشن فلم پیسیفک رِم زمین پر ایک آسمانی مخلوق کے حملے کے بارے میں ہے اور توقع ہے کہ یہ فلم بھی نوجوانوں میں بہت مقبول ہو گی۔
جاناتھن ٹاپلن فلم پروڈیوسر ہیں اور مارٹن اسکارسیسی کی ابتدائی فلم مِین اسٹریٹس کے خالق ہیں۔ اس فلم میں رابرٹ ڈی نیرو اور ہاروے کیٹل نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ آج کل وہ یوینیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا اننبرگ اسکول فار کمیونیکیشن میں میڈیا کے تجزیہ کار ہیں۔
ٹاپلن کہتے ہیں کہ گولیوں کا تبادلہ اور کاروں کا تعاقب بعض اوقات کہانی کو احتیاط سے بیان کرنے کا متبادل بن جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایکشن فلمیں ایکشن سے بھرپور ہوتی ہیں، اور یہ ایسی چیز ہے جو ہالی وڈ بہت سلیقے سے کرتا ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر بہت زیادہ تشدد نہ دکھایا جائے تو نوجوان ناظرین کی دلچسپی کیسے برقرار رکھی جائے گی۔‘‘
ٹاپلن اور ہالی وڈ کے دوسرے لوگ توجہ دلاتے ہیں کہ وڈیو گیم جن کا ہدف انفرادی کھلاڑی ہوتے ہیں، یعنی فرسٹ پرسن شوٹر گیمز، فلموں یا ٹیلیویژن سے بھی بڑا مسئلہ ہیں ۔
نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے وائن لا پیرے نے کہا ہے کہ مسلسل تشدد کی ذمےداری وڈیو گیم بنانے والوں اور فلمیں بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے آتشیں اسلحہ پر زیادہ سخت پابندیوں کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا۔
لیکن ہالی وڈ کی تفریحی فلمیں ساری دنیا میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ تجزیہ کار ٹاپلن کہتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بہت بڑی طاقت والا اسلحہ لوگوں کو آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا ۔ ان کے مطابق ’’بہت سے ملکوں میں ، جہاں ہالی وڈ کی مقبول فلمیں ہی تفریح کا ذریعہ ہیں، بچوں کے قتلِ عام کے واقعات نہیں ہوتے۔‘‘
تاہم، ٹاپلن آج کل کی فلموں میں تشدد کی بھر مار سے پریشان ہیں۔ انہیں خاص طور سے فلمساز کوینٹن ٹارنٹینو کی بنائی ہوئی فلموں پر تشویش ہے۔ ان کی تازہ فلم جانگو انچینڈ میں امریکہ کی خانہ جنگی سے پہلے کے دور میں، امریکہ کے جنوب میں غلامی اور اس کے انتقام کی داستان بیان کی گئی ہے۔
ورائٹی کے ایڈیٹر ٹم گرے کہتے ہیں کہ اسکول میں گولیاں چلائے جانے کے تازہ واقعات کے بعد ، ہالی وڈ میں بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فلمسازوں کو فلموں میں تشدد کم کر دینا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کنیٹی کٹ کی شوٹنگ کے بعد بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہ اہم واقعہ ہے جس سے بالآخر لوگوں کی سوچ میں فرق آ سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو جائے، لیکن ہم یہ سب کچھ پہلے بھی سن چکے ہیں۔‘‘
اور نوجوانوں میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ وہ مار کٹائی سے بھر پور ایکشن فلموں سے اکتا گئے ہوں۔
ہالی وڈ میں بھی لوگ اسی قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں، لیکن مار دھاڑ کے مناظر ہالی وڈ کی ایکشن فلموں کا لازمی جزو ہیں، اور مستقبل قریب میں ان کے غائب ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
’جی آئی جو: ریٹیلیی ایشن‘ اس قسم کی فلم ہے جو ایکشن، لڑائی اور دھماکوں سے بھر پور ہے۔ ایسی فلمیں نوجوانوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں اور ہالی وڈ کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔
تفریح کی صنعت کے رسالے ورائٹی کے ٹم گرے کہتے ہیں کہ پُر تشدد تفریح کے بارے میں بحث اس رسالے کی ابتدا یعنی 100 برس بلکہ اس سے بھی پہلے سے جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’در اصل یہ بحث دو ہزار سال سے جاری ہے۔ اگر آپ ان ڈراموں پر، ان یونانی المیوں پر نظر ڈالیں جو یونانیوں نے تحریر کیے تھے، اگر آپ کو لیسیم میں گلیڈی ایٹرز کا تصور کریں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ تشدد اور تفریح کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ تھا۔ لیکن اب تشدد زندگی کے ہر پہلو پر غالب آ گیا ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
ایلفرڈ ہچکاک کی فلم سائیکو کا وہ منظر جس میں شاور کے دوران چاقو مارتے دکھایا گیا ہے، بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا۔ 1960ء کی اس لاجواب فلم میں یہ ایک مختصر سا منظر تھا جس میں کہانی کے بیان کے لیے مکالمے پر انحصار کیا گیا تھا۔
سلوسٹر اسٹالون کی عنقریب ریلیز ہونے والی فلم بلٹ ٹو دی ہیڈ میں ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایکشن کا سہارا لیا گیا ہے۔
سائنس فکشن فلم پیسیفک رِم زمین پر ایک آسمانی مخلوق کے حملے کے بارے میں ہے اور توقع ہے کہ یہ فلم بھی نوجوانوں میں بہت مقبول ہو گی۔
جاناتھن ٹاپلن فلم پروڈیوسر ہیں اور مارٹن اسکارسیسی کی ابتدائی فلم مِین اسٹریٹس کے خالق ہیں۔ اس فلم میں رابرٹ ڈی نیرو اور ہاروے کیٹل نے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ آج کل وہ یوینیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا اننبرگ اسکول فار کمیونیکیشن میں میڈیا کے تجزیہ کار ہیں۔
ٹاپلن کہتے ہیں کہ گولیوں کا تبادلہ اور کاروں کا تعاقب بعض اوقات کہانی کو احتیاط سے بیان کرنے کا متبادل بن جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایکشن فلمیں ایکشن سے بھرپور ہوتی ہیں، اور یہ ایسی چیز ہے جو ہالی وڈ بہت سلیقے سے کرتا ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر بہت زیادہ تشدد نہ دکھایا جائے تو نوجوان ناظرین کی دلچسپی کیسے برقرار رکھی جائے گی۔‘‘
ٹاپلن اور ہالی وڈ کے دوسرے لوگ توجہ دلاتے ہیں کہ وڈیو گیم جن کا ہدف انفرادی کھلاڑی ہوتے ہیں، یعنی فرسٹ پرسن شوٹر گیمز، فلموں یا ٹیلیویژن سے بھی بڑا مسئلہ ہیں ۔
نیشنل رائفل ایسوسی ایشن کے وائن لا پیرے نے کہا ہے کہ مسلسل تشدد کی ذمےداری وڈیو گیم بنانے والوں اور فلمیں بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے آتشیں اسلحہ پر زیادہ سخت پابندیوں کے مطالبے کو نظر انداز کر دیا۔
لیکن ہالی وڈ کی تفریحی فلمیں ساری دنیا میں بڑے شوق سے دیکھی جاتی ہیں اور کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ تجزیہ کار ٹاپلن کہتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بہت بڑی طاقت والا اسلحہ لوگوں کو آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا ۔ ان کے مطابق ’’بہت سے ملکوں میں ، جہاں ہالی وڈ کی مقبول فلمیں ہی تفریح کا ذریعہ ہیں، بچوں کے قتلِ عام کے واقعات نہیں ہوتے۔‘‘
تاہم، ٹاپلن آج کل کی فلموں میں تشدد کی بھر مار سے پریشان ہیں۔ انہیں خاص طور سے فلمساز کوینٹن ٹارنٹینو کی بنائی ہوئی فلموں پر تشویش ہے۔ ان کی تازہ فلم جانگو انچینڈ میں امریکہ کی خانہ جنگی سے پہلے کے دور میں، امریکہ کے جنوب میں غلامی اور اس کے انتقام کی داستان بیان کی گئی ہے۔
ورائٹی کے ایڈیٹر ٹم گرے کہتے ہیں کہ اسکول میں گولیاں چلائے جانے کے تازہ واقعات کے بعد ، ہالی وڈ میں بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا فلمسازوں کو فلموں میں تشدد کم کر دینا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’کنیٹی کٹ کی شوٹنگ کے بعد بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہ اہم واقعہ ہے جس سے بالآخر لوگوں کی سوچ میں فرق آ سکتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہو جائے، لیکن ہم یہ سب کچھ پہلے بھی سن چکے ہیں۔‘‘
اور نوجوانوں میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ وہ مار کٹائی سے بھر پور ایکشن فلموں سے اکتا گئے ہوں۔