امریکہ نے کہا ہے شدت پسندوں کے زیر تسلط علاقے رقہ میں شام کی حکومت کی طرف سے کی گئی فضائی کارروائیوں میں درجنوں شہریوں کی ہلاکت کی اطلاعات پر اسے "انتہائی افسوس" ہوا ہے۔
برطانیہ میں قائم تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے کہا کہ منگل کو ایک صنعتی علاقے اور ایک معروف مارکیٹ میں ہونے والے حملے میں کم از کم 95 افراد ہلاک ہوئے جن میں کم از کم 52 عام شہری تھے۔
جمعرات کو جاری ایک بیان میں امریکی محکمہ خارجہ نے اس واقعہ کی مذمت کی جو بقول اس کے دمشق کی طرف سے" انسانی حقوق اور بین الااقومی قوانین کی متواتر خلاف ورزی ہے"۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ (شامی) حکومت کی طرف سے عام شہریوں کا قتل عام جاری ہے جو اس کی انسانی حقوق سے متعلق مکمل بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔
مارچ 2011ء سے صدر بشار الاسد کے مخالف دھڑوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں جبکہ رواں سال دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شام کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد "خلافت" قائم کرنے کا اعلان کیا جو ہمسایہ ملک عراق کے کچھ علاقوں تک بھی پھیل گئی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں دولت اسلامیہ کے گروہ نے ایک وڈیو جاری کی جس میں جنگجوؤں کو 18 افراد کے سر قلم کرتے دکھایا گیا جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ شام کے فوجی ہیں۔
امریکہ نے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں کے خلاف سینکڑوں فضائی کاروائیاں کی ہیں۔ امریکی حکام نے جمعرت کو کہا کہ دولت اسلامیہ کے گروہ کے خلاف لڑائی کے لیے مزید جہاز افغانستان سے یہاں لائے جائیں گے۔
فضائیہ کی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اے- 10 جنگی جہازوں کا ایک اسکواڈرن افغانستان سے اس علاقے میں منتقل کیا گیا ہے۔ اے-10 جہاز کم رفتار کے ساتھ نیچی پرواز کر سکتا ہے جس سے ہواباز کو ہدف کی شناخت کے لیے زیادہ وقت مل جاتا ہے۔
امریکی موقر اخبار 'دی نیویارک ٹائمز' میں جمعرات کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن آئندہ چند ہفتوں میں چھ مسلح ڈرون طیارے جنہیں 'ریپرز' بتایا گیا ہے افغانستان سے یہاں بھیجے گا۔