ایران نے مغربی ممالک کے ساتھ 2015ء کے معاہدے میں مقرر کی گئی افزودہ یورینیم کی حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس بات کا اعلان کیا جس کی تصدیق جوہری نگران ادارے، انٹرنشینل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی کی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ایک نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر 300 کلو سے زیادہ ہو گئے ہیں‘۔
ایران نے امریکہ کے اس معاہدے سے انخلا اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ تناؤ کے بعد گزشتہ مہینے اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے اس اعلان کے بعد کہا ہے کہ ’ایران آگ سے کھیل رہا ہے۔‘
وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کس سے کھیل رہے ہیں۔‘
اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ’ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
نگران ایجنسی آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ معاہدے کی مقرر کردہ حد سے زیادہ ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے عالمی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے کیونکہ معاہدے کے مطابق کسی ایک فریق کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد دوسرا فریق ردعمل کے طور پر کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے ایک عالمی معاہدہ 2015 میں طے پایا تھا جس کے بعد ایران پر عائد جوہری پابندیاں ختم ہونی تھیں۔ لیکن، امریکہ نے گزشتہ سال اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یورینیم کے ذخائر سے متعلق ایران کے بیان کو ’جوہری ہتھیار بنانے کی جانب اہم قدم‘ قرار دیا ہے اور یورپی ممالک سے کہا ہے کہ ایران پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ جرمی ہینٹ کا کہنا ہے کہ ایران کے اس اقدام پر ’بہت پریشان ہیں‘ اور انھوں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ ایران کے جوہری معاہدے کی حمایت کرتا ہے اور ’’اگر ایران نے معاہدہ ختم کر دیا تو وہ بھی کر دیں گے۔‘‘
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ انھیں ’’اس پر افسوس ہے۔ لیکن اسے زیادہ ڈرامائی نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’حالیہ واقعات پر ایران کا یہ فطری ردعمل ہے‘‘ اور یہ امریکہ کی ایران کے خلاف ایک مہم کا جواب ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ ایران کے جوہری معاہدے کے مخالف ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدیں۔