ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے ملک کی جانب سے عالمی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے جوہری سمجھوتے کی توثیق کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ یہ معاہدہ ابہام اور ’ساخت کی خامیوں‘ کا شکار ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کو تحریر کردہ مراسلہ جسے سرکاری ٹیلی ویژن پر پڑھا گیا، خامنہ ای نے کہا ہے کہ اِن خامیوں کے باعث حال اور مستقبل میں ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اُنھوں نے ایرانی اہل کاروں پر زور دیا کہ وہ سمجھوتے میں بے ربطیوں کے خلاف چوکنہ رہنے کا انتباہ کیا۔
ادھر، سمجھوتا ایران میں شدید لے دے کا موضوع بنا ہوا ہے۔ سخت گیرحلقہ ایرانی مذاکرات کار پر نکتہ چیں ہے، جس کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی کے ساتھ ضرورت سے زیادہ وسعت نظری کا مظاہرہ کیا۔
مذاکرات کاروں نے جولائی میں سمجھوتا طے کیا۔ پورے طور پر عمل درآمد کی صورت میں، ایران کے جوہری پروگرام پر سخت قدغنوں کے عوض ایران کے خلاف بین الاقوامی تعزیرات میں نرمی برتی جائے گی۔
اتوار کو، امریکی صدر براک اوباما نے حکومت امریکہ کو احکامات جاری کیے ہیں کہ ایران کے خلاف تعزیرات اٹھانے کی تیاری کی جائے۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ایران نے اپنے طور پر سمجھوتے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، سینٹری فیوجز ہٹا دیے گئے ہیں، یورینئیم کے ذخیرے میں کمی لائی گئی ہے، عَرق کے بھاری پانی تیار کرنے والے جوہری ری ایکٹر کو پھتریلے گارے سے چُن دیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ بات یقینی بنانا ہے کہ وہاں کوئی جوہری ہتھیار تشکیل نہیں دیا جا رہا۔
امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی ایک طویل مدت سے اس شبہ کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کا مقصد نیوکلیئر ہتھیار تشکیل دینا ہے۔ ایران اس بات پر مصر ہے کہ اس کا پروگرام توانائی پیدا کرنے اور طبی تحقیق کے پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔