امریکی صدر براک اوباما نے 1500 تک امریکی فوج عراق میں تعینات کرنے کی اجازت دے دی ہے، جس کا مقصد داعش کے شدت پسندوں سے نمٹنا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ یہ فوجی لڑاکا کردار ادا نہیں کریں گے۔ لیکن، وہ عراقی اور کرد افواج کو تربیت فراہم کریں گے اور مشورہ دیں گے، جو داعش سے نبردآزما ہیں۔
جمعے کے روز کیا جانے والا یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب مسٹر اوباما کانگریس کے قائدین سے ملاقات کر رہے ہیں۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اس ملاقات کے میں، وہ قانون سازوں سے اس رقم کی منظوری اور دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے خلاف فوج کی تعیناتی کے لیے کانگریس کی طرف سے ووٹ دینے کی درخواست کریں گے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عراق بھیجے جانے والے اضافی اہل کار بغداد اور اربیل کے باہر واقع مراکز پر عراقیوں کی مشاورت اور اعانت کا کام انجام دیں گے؛ جب کہ دیگر اہل کار عراقی فوج کو تربیت دینے کے لیے ملک کے دیگر علاقوں میں تعینات ہوں گے۔
یہ خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ داعش کے خلاف لڑائی کے حوالے سے، صدر اوباما کا ایران سے بھی رابطہ ہوا ہے، جس معاملے کو ممکنہ طور پر ایران کے متنازع جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سے نتھی کیا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کی اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی، جس میں کہا گیا تھا کہ مسٹر اوباما نےایران کےرہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ اِی کو ایک مراسلہ بھیجا ہے۔
ارنیسٹ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ وہ صدر اور کسی دوسرے عالمی رہنما کے درمیان ہونے والے کسی نجی مراسلے پر رائے زنی کا اختیار نہیں رکھتے۔
اِس خط سے متعلق رپورٹ سے، جِس کے بارے میں دیگر اخباری اداروں نےدعویٰ کیا ہے کہ اِس کی تصدیق کی جا چکی ہے، یہ تشویش بڑھی ہے کہ ایران کی شیعہ حکومت کو سنی شدت پسند گروپ کے خلاف شامل کرنے سے، داعش کے خلاف لڑائی کہیں فرقہ پرستی کی شکل نہ اختیار کر لے۔
اب تک امریکہ کا دھیان اس بات پر مرکوز رہا ہے کہ داعش سے نمٹنے کے لیے عراق کے سنی قبائل کو بااختیار بنایا جائے اور سنی ملکوں کا ایک علاقائی اتحاد تیار کیا جائے۔