وائٹ ہاؤس میں صدربراک اوباما اور وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو کے درمیان ملاقات کے ایک روز بعد اسرائیل مشرق وسطیٰ امن عمل کے سلسلے میں اپنی مثبت توقعات کا اظہار کررہا ہے۔ جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے ایسی کوئی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی۔
اسرائیل نے منگل کے روز وائٹ ہاؤس میں دونوں ملکوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ایک کامیابی قراردیتے ہوئے اسے سراہا ہے۔اسرائیلی بستیوں کی توسیع کے معاملے پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک سال سے زیادہ عرصےسےکشیدگی کے بعد دونوں راہنماؤں کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات اپنی راہ پر لوٹ آئے ہیں۔
مسٹر اوباما نے دونوں فریقوں کے درمیان دو ماہ کے بالواسطہ امن مذاکرات کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کے اسرائیلی مطالبے کی حمایت کی ۔اسرائیلی صدر شمعون پریز کا کہنا ہے کہ یہ صحیح سمت ایک اہم قدم ہے۔
مسٹر پریزنے کہا کہ ایک طویل جمود کے بعد امن کے عمل میں تیزی آرہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا خیال ہے کہ براہ راست بات چیت ہی اس تنازع سے وابستہ پیچیدہ مسائل کے حل کا ،مثلاً یروشلم کی حیثیت کا تعین، فلسطینی پناہ گزین اور ایک فلسطینی ریاست کی حتمی سرحدیں ، واحد ذریعہ ہیں۔
لیکن فلسطینی اعلیٰ ترین مذاکرات کار صائب ارکات کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی وجہ سے براہ راست بات چیت ابھی قبل از وقت ہے۔
ان کا کہناتھا کہ براہ راست مذاکرات کی کلید وزیر اعظم نتن یاہو کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا انحصار ان پر ہے۔ اس کا انتخاب ان کے پاس ہے۔ اگر اسرائیل بستیوں کی تعمیری سرگرمیاں روک دے تو ہم براہ راست مذاکرات کی طرف جاسکتے ہیں۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بستیوں کی تعمیر پر عائد کردہ جزوی پابندی کافی نہیں ہے۔ 10 ماہ کے لیے عائد کی جانے والی یہ پابندی سمتبر میں ختم ہورہی ہے اور مسٹر نتن یاہو پر اپنے اتحادیوں کی جانب سے یہ دباؤ ہے کہ وہ اس مدت میں مزید توسیع نہ کریں۔