رسائی کے لنکس

اوباما کے انتخاب کے اسرائیلی سیاست پر ممکنہ اثرات


صدر براک اوبا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات (فائل فوٹو)
صدر براک اوبا اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات (فائل فوٹو)

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جنوری میں اسرائیل کے قومی انتخابات کی مہم تیز ہو گی تو مسٹر اوباما کا دوبارہ صدر منتخب ہو جانا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

صدر براک اوباما کے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ ان کے تعلقات پر توجہ مرکوز ہوئی ہے۔ کبھی کبھی دونوں کے درمیان ذاتی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اس بات کو چھپایا نہیں ہے کہ ان کا جھکاؤ مسٹر اوباما کے حریف مٹ رومنی کی طرف رہا ہے۔ بعض اسرائیلی سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے قریبی تعلقات کامستقبل کیا ہو گا۔


منگل کے روز کے صدارتی انتخاب میں مسٹر اوباما کی فتح کے اعلان کے چند گھنٹے بعد، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے سفارتی سطح پر کسی ممکنہ نقصان کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری کارروائی کی۔

انھوں نے اسرائیل میں امریکہ کے سفیر ڈین شاپیرو کو طلب کیا اور کھلے عام مسٹر اوباما کو ان کی فتح پر مبارکباد دی۔ انھوں نے کہا’’امریکہ اور اسرائیل کے درمیان سیکورٹی کا تعلق چٹان کی طرح مضبوط ہے اور میں اسے مزید مضبوط بنانے کے لیے صدر اوباما کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں ۔ میں امن اور سیکورٹی کے مقاصد میں پیش رفت کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

میڈیا کے لیے منعقد کیے ہوئے اس پروگرام میں، مسٹر شاپیرو نے مسٹر نیتن یاہو کے کلمات کا جواب دیتے ہوئےکہا’’صدر نے اپنی صدارت کی پہلی مدت میں، سیکورٹی میں قریبی تعاون اور آپ کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا تعلق قائم رکھا ہے، اور میں جانتا ہوں کہ وہ دوسری مدت میں بھی اس تعلق کو قائم رکھنے کے منتظر ہیں۔‘‘

یہ بیانات ایسے وقت میں دیے گئے ہیں جب مسٹر نیتن یاہو اور مسٹر اوباما کے درمیان تعلقات میں مبینہ کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔
صدارتی انتخاب میں مسٹر اوباما کے مد مقابل ریپبلکن امیدوار مٹ رومنی ، مسٹر نیتن یاہو کے ذاتی دوست ہیں۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مسٹر نیتن یاہو کے خیال میں اگر رومنی امریکہ کے صدر بن جاتے، تو اسرائیل کے لیے امریکی حمایت میں اضافہ ہو جاتا۔

اسرائیلی ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ اورہیبرو یونیورسٹی کے پروفیسر گڈیون ریہت کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو کے بعض ناقدین نے الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہے ہیں اور اس طرح انھوں نے اسرائیل کی یہودی مملکت کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

’’چونکہ نیتن یاہو نے انتخابات میں مداخلت کی، اس لیے وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور صدر اوباما کے درمیان تعلق میں مسائل پیدا ہو گئے ہیں ۔ میں یہ تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سے پورے تعلقات متاثر ہوں گے، لیکن یہ کوئی اچھی ابتدا نہیں ہے ۔‘‘

بعض تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ صدارت کی آخری مدت میں، مسٹر اوباما کو امریکی یہودیوں میں اسرائیل کے طاقتور حامیوں کا خوف نہیں ہوگا ۔ اس طرح اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے، جو تعطل کا شکار ہیں، امریکہ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ یہ مذاکرات فلسطینیوں کے ان مطالبات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گئےہیں کہ اسرائیلی حکومت مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی بستیاں تعمیر کرنا بند کرے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔

نیتن یاہو کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کو تیار ہے لیکن کوئی پیشگی شرائط عائد نہیں کی جانی چاہئیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جمی کارٹر، بل کلنٹن، اور جارج بش سمیت کئی امریکی صدور نے اپنے عہدے کی دوسری مدت کے دوران ، دونوں فریقوں کو رعایتیں دینے پر آمادہ کیا اور اس طرح وہ امن کے عمل کے آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے ۔

سیاسی کالم نگار اور Bar-Ilan University کے پروفیسر ڈینی روبنسٹیئن کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو کی قدامت پسند لیکڈ پارٹی نے حال ہی میں انتہائی دائیں بازو کی Beiteinyu پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے مستقبل میں فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کی راہ مسدود ہو سکتی ہے۔’’یہ میری خوش فہمی ہے کہ صدارت کی دوسری مدت سے امن مذاکرات کی تجدید میں مدد ملے گی ۔ لیکن مجھے یقین نہیں کہ نیتن یاہو یہ کام کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مذاکرا ت کے لیے جائیں تو آپ کو کچھ رعایتیں دینے کے لیے تیار رہنا چاہیئے ۔ اور ان کے ووٹروں کا حلقہ کوئی رعایتیں دینے کو تیار نہیں ہے ۔‘‘

مسٹر اوباما اور مسٹر نیتن یاہو کے درمیان کشیدگی کی ایک اور وجہ ایران ہے۔اسرائیلی عہدے داروں کے درمیان آج کل زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے کہ اگر ایران نیوکلیئر ہتھیار بنانے کی کوششیں ترک نہیں کرتا، تو کیا ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کیا جانا چاہیئے یا نہیں، اور یہ حملہ کب کیا جانا چاہیئے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام صرف پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

مسٹر نیتن یاہو نے بار بار انتباہ کیا ہے کہ وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ صبر سےکام لے تا کہ مغربی ملکوں نے جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کے ذریعے ایران کو اپنی راہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

تا ہم ریہت کہتے ہیں کہ جنوری میں اسرائیل کے قومی انتخابات کی مہم تیز ہو گی تو مسٹر اوباما کا دوبارہ صدر منتخب ہو جانا ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

’’شاید وہ لوگ جو Likud اور Netanyahuکو چیلنج کرتے ہیں، اوباما کی جیت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کریں گے ۔ وہ کہیں گے کہ امریکہ کے ساتھ تعلق اسرائیل کے لیے اہم ہے اور چونکہ نیتن یاہو نے واضح طور پر رومنی کی حمایت کی تھی اور رومنی ہار گئےہیں، اس لیے نیتن یاہو وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے موزوں نہیں ہوں گے۔‘‘

ریہت کہتے ہیں کہ اسرائیل میں اعتدال پسند اور بائیں بازو کے سیاست دانوں کو مسٹر اوباما کی جیت پر سب سے زیادہ خوشی ہوئی لیکن ان کے لیے اب بھی مسٹر نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحاد کو شکست دینا آسان کام نہیں۔‘‘
XS
SM
MD
LG