امریکی قانون سازوں نے تجویز دی ہے کہ روہنگیا کے نسلی گروپ کے ساتھ سلوک کے معاملے پر میانمار کی فوج کے خلاف تعزیرات عائد کی جائیں، ایسے میں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ مشرقی ایشیا کے 12 روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں، جس میں علاقائی سربراہ اجلاس کے دوران اُن کی میانمار حکومت کے ارکان سے ملاقات ہوگی۔
ایوان کے دونوں اطراف کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانونسازوں نے جمعرات کو سینیٹ اور جمعے کو ایوانِ نمائندگان میں مسودہٴ قانون پیش کیا جس میں دونوں نے میانمار کے خلاف تجارت اور درآمدات کے شعبوں میں پھر سے پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ میانمار کو برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
ان پابندیوں کا مقصد شمالی میانمار کی ریاستِ رخائن میں مسلمان روہنگیا افراد کے ساتھ فوج کی جانب سے روا رکھنے جانے والے رویے پر سزا دینا ہے۔
سینیٹر جان مکین نے کہا ہے کہ سینیٹ کی قانون سازی ’’برما میں بے گناہ مرد، خواتین اور بچوں کو قتل کرنے اور بے دخل کرنے کے الزام پر اعلیٰ فوجی اہل کاروں کو احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے گی، اور یہ بات واضح کرے گی کہ امریکہ ایسے مظالم کو برداشت نہیں کرے گا‘‘۔
ایوانِ نمائندگان میں ہونے والی قانون سازی کے بارے میں، رکن پارلیمان الیوٹ انگل نے کہا کہ برما کی قیادت کو، جس میں فوجی اور سولین دونوں شامل ہیں، ’’واضح پیغام‘‘ بھیجنے کے لیے قانون ساز سمجھتے ہیں کہ تعزیرات کا استعمال لازم ہے۔
اینگل نے کہا کہ ’’پُرتشدد کارروائیاں ضرور رکنی چاہئیں، زیادتیاں کرنے والوں کا احتساب لازم ہے، اور برما کی فوج اور سکیورٹی افواج کو بامعنی سول کنٹرول میں لایا جانا ضروری ہے‘‘۔