امریکہ میں کچھ ریپبلکن قانون سازوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اپنے آپ کو شامی پناہ گزین ظاہر کرنے والے دہشت گرد امریکہ میں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔
منگل کو امیگریشن اور امدادی اداروں کے حکام نے اس مسئلے پر کمیٹی کے سامنے اپنی رائے پیش کی۔
ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی ایک ذیلی کمیٹی کی چیئرپرسن الینا راس لٹینن نے کہا کہ ’’شام اور اس کے ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں پناہ گزین یورپ پہنچ رہے ہیں، اور ان میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اگر ہم پناہ گزین کی جانچ پڑتال کی ضمانت نہیں دے سکتے تو انہیں ملک میں لانے کی حمایت کرنا غیر ذمہ دارانہ ہو گا۔‘‘
امیگریشن حکام نے گواہی دی کہ امریکہ میں پناہ کے خواہشمند ہزاروں شامی پناہ گزینوں کی سکیورٹی جانچ پڑتال کے لیے ملک میں بہترین قوائد و ضوابط موجود ہیں۔
انہوں نے قانون سازوں سے کہا کہ پناہ دینے کے عمل کا پہلا مرحلہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا واقعی یہ شخص پناہ گزین ہے اور اپنے ملک میں اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ پھر ایجنسیاں خطرے سے دوچار پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی کوشش کرتی ہیں جن میں بیوائیں، یتیم بچے اور بیمار افراد شامل ہیں۔ امریکہ میں داخل ہونے سے قبل تمام پناہ گزینوں کو سکیورٹی جانچ پڑتال کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
سب کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ سال امریکہ میں جن شامی مہاجرین کو پناہ دی گئی وہ نوجوان تھے جن میں سے کئی کے اپنے خاندان تھے جن کے ساتھ ’’بہت برا سلوک کیا گیا تھا۔‘‘
یو ایس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے ڈائریکٹر لیون روڈریگیز نے بتایا کہ ان کا ادارہ پناہ گزینوں کی ذاتی معلومات کا موازنہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ڈیٹا بیس میں موجود معلومات سے کرتا ہے تاکہ کسی دہشت گردانہ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارے کے حکام کو شام کی صورتحال کے بارے میں آٹھ دن کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ امریکہ میں پناہ کے خواہشمند افراد کی سکیورٹی جانچ کر سکیں۔
عالمی امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی دوسرے ملکوں میں آبادکاری اس مسئلے کا موزوں ترین حل ہے اور وہ اس طویل اور پیچیدہ عمل کو آسان بنانے کے لیے مدد فراہم کر سکتی ہیں۔
منگل کو اقوام متحدہ کے مہاجرین کے لیے ہائی کمشنر نے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اگر ممکنہ دہشت گرد خود کو پناہ گزین ظاہر کر کے ’’امریکہ داخل ہونا چاہتے ہیں تو ان کا آبادکاری کے لیے درخواست دینا زیادہ بیوقوفانہ کام ہوگا۔‘‘ ان کا اشارہ آبادکاری کے عمل کے پیچیدہ اور طویل ہونے کی طرف تھا۔
شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں نصف کے قریب شامی ہلاک یا بے گھر ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے شام کے پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعے ساڑھے چار ارب ڈالر کی امداد فراہم ہے۔ امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کا تخمینہ ہے کہ یہ امداد ہر ماہ 50 لاکھ شامیوں تک پہنچتی ہے۔