امریکہ میں دو نومبر کے وسط مدتی انتخابات کے لئے امیدواروں کی انتخابی مہم اپنے عروج پر ہے۔ مگر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اصل امیدواروں سے زیادہ سرگرم وہ شخصیات ہیں جو مشہور تو ہیں مگر امیدوار نہیں ۔ خاتون اول مشیل اوباما ، سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور ریپبلکن پارٹی کی سابق نائب صدارتی امیدوار سارا پیلن ان شخصیات میں سے ہیں جو ان امیدواروں کے انتخابی جلسوں سے خطاب کررہی ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
مقبولیت کے لحاظ سے اپنے شوہر سے پورے بیس پوائنٹس آگے امریکی خاتون اول مشیل اوباما ڈیمو کریٹک پارٹی کی ان نشستوں کے لئے انتخابی ریلیوں میں شامل ہورہی ہیں جنہیں سخت مقابلہ درپیش ہے ۔
مشیل اوباما کے ورزش اور صحت مند رہنے کے لئے سبزیاں اگانے کے چھوٹے پروگرامز نے عام امریکیوں پر ان کا ایک مثبت تاثر چھوڑا ہے ، اپنے شوہر کے بر عکس وہ صحت عامہ کے بل اور معاشی بحالی کے منصوبوں کی وجہ سے متنازعہ نہیں سمجھی جاتیں ۔
وہ کہہ چکی ہیں کہ میرے بچے میری زندگی کا مرکز ہیں ، اور ان کے اچھے مستقبل کی امیدیں میرے ہر قدم پر میرے ساتھ ہیں ۔
اگرچہ پیغام تو سادہ ہے مگر ایک سیاسی جریدے پولیٹیکو کے صحافی اینڈی برر کے مطابق یہ بیان کافی سیاسی بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی بیان ہے اور ان کا ہر بیان سیاسی ہی ہوتا ہے ۔ ان کی مخاطب اعتدال پسند خواتین ہیں ، جنہوں نے براک اوباما کے لئے ووٹ دیئے تھے ، مگر اس کا فائدہ ڈیمو کریٹک پارٹی کو ہوا ، اب اعتدال پسند خواتین کا جھکاؤ ریپبلکنز کی طرف ہے ۔
ریپبلکن پارٹی کی سابق نائب صدارتی امیدوار سارا پیلن ، جنہوں نے امریکی خواتین کو گرویدہ بنانے کے لئے ایک جرات مند ماں کا تاثر پیش کیا ، وہ حکومت کے حد سے زیادہ سرکاری اخراجات کی شدید مخالف ہیں ۔ امریکہ کے ایک سیاسی روزنامے دا ہل کے صحافی مائیک او برائین کہتے ہیں کہ پیلن ماؤں کو متوجہ کرنا چاہتی ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ماؤں کو یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ وہ کسی کو اپنے بچوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے نہیں دیں گی ۔
سارا پیلن نے ماما گرزلی کا نام ریپبلکن پارٹی کی ان خواتین امیدواروں کو دیا ہے جو ابتدائی مرحلے کے پرائمری انتخابات جیت چکی ہیں ۔
لیکن بعض انتخابی امیدواروں نے امریکی ووٹروں کے دل جیتے کے لئے اپنے اور سارا پیلن کے درمیان فاصلے کا راستہ بھی چنا ہے ۔ گزشتہ ہفتے سارا پیلن نے کیلی فورنیا میں جس انتخابی ریلی میں شرکت کی ، اس میں سینیٹ کی ریپبلکن امیدوار کارلی فیورینا اور میگ وٹ مین نے پہلے سے طے شدہ مصروفیت کا عذر پیش کر کے شرکت سے معذرت کر لی تھی ۔
ڈیمو کریٹک امیدواروں کی انتخابی مہم میں ایک اور جانا پہچانا چہرہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ہم صرف دو مزید سال چاہتے ہیں ۔ آپ نے ریپبلکنز کو آٹھ سال تک جو گڑھا کھودنے دیا ، ہمیں اس سے باہر نکلنے کے لئے کم از کم دو سال تو دیں ۔
ریپبلکن پارٹی نے بل کلنٹن کے دور صدارت میں ان کا مواخذہ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ مگر صدارت سے علیحدگی کے بعد امریکی عوام بل کلنٹن کو اپنے کلنٹن گلوبل انی شے یٹو نامی فلاحی ادارے کے تحت ضرورت مندوں کی مدد کرتا دیکھ رہے ہیں اور ان کی مقبولیت عروج پر ہے ۔
مائیک او برائین کہتے ہیں کہ ڈیموکریک پارٹی کے حامی واقعی انہیں دیکھنا چاہتے ہیں ، اُن کی ان سے مثبت وابستگی ہے جسے نقصان پہنچانے کے لئے بل کلنٹن نے کچھ نہیں کیا ۔
لیکن انتخابی مہم سے جس شخصیت کی غیر موجودگی کو محسوس کیا جارہا ہے وہ ہیں سابق صدر جارج ڈبلیو بش۔
اینڈی بر کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ امریکہ کے سب سے نا پسندیدہ سیاستدان ہیں ۔ یقینا یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی ، جیسا کہ سب صدور کے ساتھ ہوتا ہے مگر اس وقت تو وہ ایسا ہی ہے ۔
ان شخصیات کی انتخابی ریلیوں میں سرگرم موجودگی انتخابی نتائج پر کیا اثرات مرتب کرے گی ، ماہرین کے مطابق اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ مگر ان کی موجودگی سے سارے انتخابی عمل کو امریکی عوام کی توجہ ضرور مل رہی ہے ۔ دو نومبر کے یہ وسط مدتی انتخابات جن میں کانگریس کی تمام 435 نشستوں اور سینیٹ کی سو میں سے 37 نشستوں پر مقابلہ ہوگا ، امریکہ کا انتخابی نقشہ تبدیل کر سکتے ہیں ۔ اگر ریپبلکن پارٹی کو انتخابات میں اکثریت ملی تو ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کو اپنے اندرون ملک پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں مشکل پیش آئے گی ۔