امریکہ کے محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ عراق کے لیے اعلان کردہ تین سو امریکی فوجی مشیروں اور اسپیشل فورسز کے فوجیوں میں سے تقریباً نصف بغداد پہنچ گئے ہیں اور انھوں نے شدت پسندوں کے خلاف عراقی فورسز کی استعداد کار کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔
پینٹاگون میں ریئرایڈمرل جان کربے نے صحافیوں کو بتایا کہ عراق بھیجے جانے والوں میں فوجی مشیر، انٹیلی جنس کے تجزیہ کار، کمانڈوز اور معاون اہلکار شامل ہیں جو دارالحکومت میں ایک مشترکہ آپریشن سنٹر قائم کرنے کے لیے ضروری تھے۔
ان کے بقول اسپیشل فورسز کی چار ٹیمیں آئندہ چند دنوں میں وہاں بھیجی جائیں گی۔
اس سے پہلے عراق میں امریکی فورسز کے 360 اہلکار موجود ہیں جو کہ بغداد میں سفارتخانے کی سکیورٹی کی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
کربے کا کہنا تھا کہ امریکہ روزانہ کی بنیاد پر عراق پر 35 فضائی نگرانی کے مشن بھی جاری رکھے ہوئے تھا جس کا مقصد انٹیلی جنس اور زمینی صورتحال سے معلومات جمع کرنا تھا۔
صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ 300 فوجی مشیروں کو عراق بھیجیں گے جو وہاں سکیورٹی فورسز کو مشورے دیں گے۔ اس منصوبے کے تحت بغداد میں ایک مشترکہ آپریشن سنٹر قائم کیا جائے گا جب کہ ایک سنٹر شمالی عراق میں بنایا جائے گا جہاں اکثر علاقوں پر سنی شدت پسندوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
جان کربے کا کہنا تھا کہ ابتدائی جائزہ رپورٹ دو سے تین ہفتوں میں تیار ہو جائے گی لیکن انھوں امریکی اہلکاروں کی عراق میں موجودگی کی مدت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
"میں آپ کو کوئی حتمی تاریخ یا مدت نہیں بتا سکتا، لیکن یہ واضح ہے کہ یہ محدود ہو گا، مختصر مدت کا مشن ہو گا۔"
عراق میں رواں ماہ کے اوائل سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ فی عراق والشام کے شدت پسندوں نے اپنی کارروائیاں تیز کرتے ہوئے ملک کے بہت سے شمالی علاقوں بشمول دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور انھوں نے دارالحکومت بغداد کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی۔
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اوائل ہفتہ عراق میں وزیراعظم نوری المالکی کے علاوہ مختلف فرقوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں جس میں انھوں نے تمام فریقین کی شمولیت سے ایک نئی حکومت کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا تھا۔