رسائی کے لنکس

'ایران نے رویہ تبدیل نہ کیا تو صدر ٹرمپ ضروری کارروائی کریں گے'


امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی مزید حملوں کو روکنے اور سعودی دفاع کے لیے ہیں۔
(فائل فوٹو)
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی مزید حملوں کو روکنے اور سعودی دفاع کے لیے ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران سے جنگ نہیں چاہتا۔ تاہم سعودی عرب میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی مزید حملوں کو روکنے اور سعودی دفاع کے لیے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے 'فاکس نیوز' سے اتوار کو گفتگو کرتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ اگر دفاع کے لیے کیے گئے اقدامات ناکام ہوئے تو امریکی صدر ضروری کارروائی کریں گے اور ایرانی قیادت یہ بخوبی جانتی ہے۔

پومپیو کا مزید کہنا ہے کہ ہمارا مقصد جنگ سے گریز کرنا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایرانی حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کررہا ہے۔ لیکن اگر تہران اپنا رویّہ تبدیل نہیں کرتا تو صدر ٹرمپ ضروری کارروائی کریں گے۔

دوسری طرف ایران کے صدر حسن روحانی نے اتوار کو کہا تھا کہ خلیج فارس کے علاقے میں غیر ملکی افواج کی موجودگی سے خطے میں عدم تحفظ پیدا ہوگا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی پر براہ راست خطاب میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں قیام امن کے لیے علاقائی تعاون کا منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

حسن روحانی کے بقول خلیج فارس میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی، خطے میں تہران کے لیے عدم تحفظ کا سبب بن سکتی ہے۔

اُدھر امریکی سیکریٹری برائے دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ سعودی آئل تنصیبات پر 14 ستمبر کو ہونے والے حملوں کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے دفاع کے لیے کی گئی درخواستوں پر امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ اور خلیج فارس میں تعینات امریکی افواج دفاعی مقاصد کے لیے ہوگی۔

امریکی سیکریٹری برائے خزانہ اسٹیون منوچن نے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی آئل تنصیبات پر حملہ عالمی معاشی نظام پر حملہ ہے۔ امریکہ کو توقع ہے کہ امریکی معاشی نظام سے منسلک ہر ملک ایران پر نافذ کردہ تعزیرات کی پابندی کرے گا۔

اتوار کے روز فرانس کے وزیر خارجہ ژان یوس لی ڈریان نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اُن کا مقصد ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرنا ہوگا۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان ملاقات ان کی اولین ترجیح نہیں ہے۔

یاد رہے کہ سعودی آئل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد سے واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ان حملوں سے سعودی عرب کی تیل کی پیداوار نصف ہو گئی جبکہ ریاض اور واشنگٹن نے ان حملوں کا الزام تہران پر لگایا تھا۔ تاہم ایران کی طرف سے ان الزامات کو رد کیا گیا ہے۔

ان حملوں کی ذمہ داری ایران کے یمن میں اتحادی حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ حملوں کے بعد امریکہ کی طرف سے ایران کے سینٹرل بنک پر تعزیرات نافذ کردی گئیں اور پینٹاگون کی طرف سے سعودی عرب کے دفاع کے لیے جنگی سامان اور اضافی امریکی فوجی دستے سعودی عرب میں تعینات کردیے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG