اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکی مسلمانوں کو مسلسل نفرت، زیادتیوں اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے جسے درست کرنے کے لیے حکام کو خود اقدامات کرنے چاہئیں۔ منگل کے روز کیپیٹل ہِل میں جو سماعت ہوئی اس میں بیشتر توجہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پر دی گئی۔
امریکہ پر گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردوں کے حملوں کو تقریباً دس برس ہوچکے ہیں، لیکن امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو ان کے اثرات سے اب تک نجات نہیں مل سکی ہے۔
امریکہ کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل برائے شہری حقوق تھامس پیریز نے امریکی سینیٹ کی شہری حقوق کی ذیلی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم مسلسل مسلمانوں،عربوں، سکھوں اور جنوبی ایشیا کے لوگوں کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک کے واقعات دیکھ رہے ہیں۔ ہر اس شہر اور قصبے میں جہاں میں مسلمان اور دوسرے اقلیتی لیڈروں سے ملا ہوں، میں نے محسوس کیا ہے کہ ان پر خوف کا احساس طاری ہے، تشدد، تنگ نظری، نفرت اور امتیازی سلوک کا خوف‘‘۔
پیریز نے کہا کہ ان مسلمان بچوں کو جو امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں، خاص طور سے بد سلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو بڑی تکلیف دہ بات ہے۔ ’’میں برابر ایسی شکایتیں سنتا رہتا ہوں کہ بچوں کو اسکولوں میں تنگ کیا جاتا ہے، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، اگرچہ امریکہ ہی ان کا گھر ہے‘‘۔
وفاقی حکومت کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2001ء کے بعد سے مسلمان امریکیوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر جرائم میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔ ریاست الی نوائے کے ڈیموکریٹک سینیٹر رچرڈ ڈربن نے کہا کہ اس کی ذمہ داری کسی حد تک ان سیاسی اور مذہبی شخصیتوں پر عائد ہوتی ہے جو اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ ’’امریکی کانگریس کے ایک ممتاز رکن نے صاف الفاظ میں کہا کہ اس ملک میں بہت زیادہ مسجدیں ہو گئی ہیں۔ مشہور عوامی شخصیتوں کی طرف سے اس قسم کے اشتعال انگیز بیانات سے امتیازی سلوک کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو جاتا ہے‘‘ ۔
عبادت کی آزادی کے ساتھ تقریر کی آزادی بھی ایسا حق ہے جو امریکیوں کو بہت عزیز ہے، الفاظ قابل اعتراض انداز سے استعمال کیے جاتے ہوں تو بھی۔ ساؤتھ کیرولائنا کے ریپبلیکن سینیٹر، لینڈسی گراہم نے اپنی تقریر میں آزاد معاشرے میں حقوق اور آزادیوں کے درمیان توازن پر زور دیا۔
انھوں نے عدم رواداری کی مذمت کی اور اس کے ساتھ ہی مسلمان امریکی شہریوں کی ایک بنیادی ذمہ داری پر زور دیا۔ انھوں نے خاص طور سے مسلمانوں نے کہا کہ وہ انتہاپسندی پر مبنی اسلام کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ کریں۔ ’’امریکی مسلمان کمیونٹی سے میں کہتا ہوں کہ اپنے مذہب پرعمل کرنے اور آئین کے تحت اپنے حقوق کو استعمال کرنے میں، میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ لیکن میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ ایک کمیونٹی کی حیثیت سے اس جنگ میں شامل ہو جائیں اور اپنے نوجوانوں کو بتا دیں کہ تمہیں کچھ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے۔ ایسے لوگوں کی طرف سے انتہا پسندی پر مبنی پیغامات پھیلائے جا رہے ہیں جو اعتدال پسند مسلمانوں، یہودیوں، غیر یہودیوں اور خدا کو ماننے یا نہ ماننے والوں، سب کو ہلاک کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ہم سب کا مسئلہ ہے‘‘۔
گذشتہ سال نیو یارک کے ٹائَمز اسکوائر کو بم سے تباہ کرنے کا دہشت گردی کا منصوبہ جو امریکہ میں تیار کیا گیا تھا، ناکام بنا دیا گیا کیوں کہ ایک مسلمان نے حکام کو اس کی اطلاع دے دی۔ سینیٹر ڈربن نے اس واقعے کا خاص طور سے ذکر کیا۔ ’’نائن الیون کے بعد ہم مل جل کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان امریکی جو اس ملک سے محبت کرتے ہیں، ہماری مدد کرتے ہیں، اور اس ملک کی حفاظت کے لیے ہماری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتےہیں‘‘۔
نیشنل انسٹیٹوٹ آف جسٹس نے 2010ء میں ایک تحقیقی مطالعے کے لیے رقم فراہم کی تھی جس سے پتہ چلا ہے کہ اگرچہ مسلمان امریکیوں کے ساتھ تعصب پر مبنی اور امتیازی سلوک جاری ہے، لیکن مسلمان کمیونٹی نے انتہا پسندی کے نظریے کی روک تھام کے لیے خود کچھ اقدامات کیئے ہیں۔ اس تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مسلمان امریکیوں میں انتہا پسند افراد کی تعداد انتہائی کم ہے۔