پوری دنیا کے بیشتر مسلمانوں نے گیارہ ستمبر، 2001 کو امریکہ پر دہشت گردوں کے حملوں کی مذمت کی۔ لیکن بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے ان حملوں کے جواب میں جو کارروائی کی، وہ ان حملوں سے بھی بد تر تھی۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میں انٹرنیشنل پالیسی ایٹیٹیوٹس پروگرام کے ڈائریکٹر اسٹیون کُل نے مسلمان اکثریت والے ملکوں میں ، رائے عامہ کے کئی جائزوں پر کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون سے پہلے ہی ، مسلمان ملکوں میں امریکہ کے بارے میں منفی خیالات موجود تھے ۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت تھی لیکن یہ منفی تاثر مضبوط نہیں ہوا تھا۔ بعد میں افغانستان اور عراق کی جنگوں، لیبیا میں نیٹو کی فوجی کارروائی، اور ایسی مطلق العنان حکومتوں کے لیئے امریکہ کی حمایت کے تاثر سے، جو اختلافِ رائے کو کچلنے کے لیے القاعدہ کے خطرے کا سہارا لیتی ہیں، امریکہ مخالف خیالات نے ٹھوس شکل اختیار کر لی۔
کُل کہتے ہیں کہ اگرچہ بہت سے مسلمان امریکہ کی جمہوری اقدار کے مداح ہیں، لیکن آج کل مسلمان اکثریت والے بیشتر ملکوں میں، امریکہ کا تاثر اچھا نہیں ہے ۔’’امریکہ کے بارے میں خیال یہ ہے کہ یہ ایسا ملک ہے جو اپنی اقدار پر کاربند نہیں رہتا اور جس کا رویہ اسلام کے بارے میں غیر دوستانہ ہے، جو بین الاقوامی قانون کا خیال کیے بغیر فوجی طاقت کے استعمال کے لیے تیار رہتا ہے، اور جسے جمہوریت کے فروغ میں دلچسپی نہیں ہے۔‘‘
اعصام الاریان مصر میں قدامت پسند تحریک اخوان المسلمین کے لیڈر ہیں۔ یہ وہ گروپ ہے جس پر حسنی مبارک کی حکومت کی مخالفت کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردوں کے ہاتھوں جتنے لوگ ہلاک ہوتے ہیں ، ان کے مقابلے میں امریکی فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور مسلمان ملکوں میں استحکام لانے اور ان پر جمہوریت مسلط کرنے کے لیے طاقت کا استعمال ناکام ثابت ہوا ہے۔’’جی ہاں، وہ افغانستان میں نا کام رہے۔ وہ وہاں ملک کی تعمیرِ نو نہیں کر سکے۔ جی ہاں، انہیں عراق میں شکست ہوئی۔ وہ وہاں جمہوریت کا نمونہ تعمیر کرنے میں ناکام رہے۔‘‘
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان رویوں کو بدلنے کے لیے اب تک مسلمان دنیا سے رابطے قائم کرنے کی جو کوششیں صدر اوباما نے کی ہیں، ان کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔
لیکن صرف انڈونیشیا کا معاملہ مختلف ہے ۔ یہاں امریکہ کا تاثر مثبت ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ صدر اوباما نے لڑکپن میں وہاں کچھ وقت گزارا ہے، وہاں کافی اہم جمہوری ترقی ہوئی ہے، اور وہاں دہشت گردوں کے حملوں سے نقصان بھی ہوا ہے ۔ لیکن انڈونیشیا میں بھی ایک ایسی اقلیت موجود ہے جو بڑے زور شور سے امریکہ کی فوجی پالیسی، اور اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات کی مخالفت کر تی ہے ۔
گزشتہ سال امن کے کارکنوں کے بحری بیٹرے پر اسرائیل کے مہلک حملے پر جکارتا میں احتجاج ہوئے۔ یونیورسٹی کے طالب علم ساہد سندانا کہتے ہیں کہ اسرائیل کی کارروائی کے لیے صدر اوباما کو بھی مورد ِ الزام ٹھہرا یا جانا چاہئیے۔وہ کہہ رہے ہیں کہ صدر اوباما کو چاہئِے کہ اسرائیل کو اس قسم کی کارروائی کرنے سے روکیں اور اسے تحفظ فراہم نہ کریں۔
بہت سے مسلمانوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ امریکہ اسلامی عقائد کے بارے میں حساس نہیں ہے ۔ مئی میں، جب امریکی فورسز نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تو بعض مسلمان علما نے امریکہ پر تنقید کی، دہشت گرد لیڈر کو ہلاک کرنے پر نہیں، بلکہ اس لیے کہ اس کی لاش سمندر برد کر دی گئی جو ان کے عقائد کے مطابق ، اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
تیونس میں، جہاں سے عرب دنیا میں جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے جمہوریت کے حامی گروپوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ لیکن تیونس کے گلی کوچوں میں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اب امریکہ کی پالیسی میں خوشگوار تبدیلی آ رہی ہے ۔ مثلاً ایک راہگیر نے کہا کہ امریکیوں نے تیونس کے معاملے میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے۔’’میرا تاثر یہ ہے کہ وہ تیونس کے لوگوں کی مدد کریں گے، بلکہ انھوں نے ایسا کرنا شروع کر دیا ہے ۔‘‘
کُل کہتے ہیں کہ اب جب کہ عراق اور افغانستان سے امریکہ نے اپنی فوجیں نکالنی شروع کر دی ہیں، اور اگر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے ، تو امکان یہ ہے کہ امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کا تاثر بہتر ہو جائے گا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ دنیا میں جمہوریت کی ترقی کی حمایت کرنا چاہتا ہے، تو اسے اخوان المسلمین اور دوسرے اسلامی گروپوں کے ساتھ بھی کام کرنا ہو گا۔’’مسلمان دنیا میں جو بھی جمہوری تحریک ابھرے گی، یہ گروپ اس کا حصہ ہوں گے۔ اور امریکہ کو ان کے ساتھ زیادہ دوستانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا، اور ان ملکوں کی جانب اتنے زیادہ شک و شبہے کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔‘‘
وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ واشنگٹن اس سمت میں قدم اٹھانے اور مصر کی اخوان المسلین کے ساتھ رابطے کے لیے تیار ہے ، لیکن الاریان کہتے ہیں کہ اب تک کوئی رابطہ قائم نہیں کیا گیا ہے ۔
گیارہ ستمبر، 2001 کے دہشت گردوں کے حملوں کو دس برس گذر چکے ہیں، اور امریکہ کے بارے میں مسلمانوں کے خیالات اب بھی تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں۔