امریکہ کی تین جنوبی مغربی ریاستوں کے ری پبلکن گورنروں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی درخواست پر 1600 فوجی اہلکار امریکہ میکسیکو سرحد پر تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سرحد پر تعینات کیے جانے والے ان اہلکاروں کا تعلق 'نیشنل گارڈز' سے ہے جو ریاستوں کے ماتحت ریزرو فوجیوں پر مشتمل فورس ہے۔
صدر ٹرمپ کی درخواست پر سرحد پر فوجی دستے بھیجنے والی ریاستوں میں ایریزونا، نیو میکسیکو اور ٹیکساس شامل ہیں۔ امریکہ کی ان تینوں ریاستوں کی سرحدیں میکسیکو سے ملتی ہیں۔
ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر کی درخواست پر کم از کم ایک ہزار اہلکار سرحد پر بھیجیں گے جب کہ نیو میکسیکو کی گورنر سوزانا مارٹینیز نے 250 اہلکار سرحد روانہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایریزونا نے بھی 225 اہلکار امریکہ میکسیکو سرحد کے لیے روانہ کردیے ہیں جب کہ ریاست کے گورنر ڈگ ڈوسی نے کہا ہے کہ وہ منگل کو مزید دستے روانہ کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق ان ریاستوں کی جانب سے بھیجے جانے والے نیشنل گارڈز کے ابتدائی دستے سرحد پر پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جہاں وفاقی حکومت کے اہلکار ان کی تعیناتی کے انتظامات کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
میکسیکو کی سرحد پر واقع امریکہ کی چوتھی ریاست کیلی فورنیا نے نیشنل گارڈز بھیجنے کی صدر ٹرمپ کی درخواست کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
کیلی فورنیا کے ڈیموکریٹ گورنر جیری براؤن ماضی میں صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی سے سرِ عام اختلاف کرتے رہے ہیں۔
جنوب مشرقی ریاست جنوبی کیرولائنا کے ری پبلکن گورنر ہینری مک ماسٹر نے بھی وفاقی حکومت کو اپنی ریاست کے نیشنل گارڈز سرحد بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دو سے چار ہزار فوجی اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر جاری "لاقانونیت" اور مہاجرین کی غیر قانونی آمد روکنے کے لیے ان کے پاس فوجی دستے طلب کرنے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکی وزیرِ دفاع جِم میٹس نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت نیشنل گارڈز کے چار ہزار اہلکاروں کی میکسیکو کے ساتھ سرحد پر تعیناتی کی منظوری دی گئی تھی۔
حکم نامے کے تحت ان فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا خرچ ستمبر تک امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' برداشت کرے گا۔
حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ نیشنل گارڈز کے یہ اہلکار قانون کے نفاذ کے لیے کی جانے والی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اور انہیں اپنے ساتھ صرف انہی مقامات پر اسلحہ رکھنے کی اجازت ہوگی جہاں ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو۔
امریکی محکمۂ دفاع کی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ نیشنل گارڈز کے اہلکاروں کو سرحد پر گرفتار ہونے والے تارکینِ وطن یا دیگر افراد سے بات چیت کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
امریکہ کے 'نیشنل گارڈز' چار لاکھ 35 ہزار کی نفری پر مشتمل ریزرو فوج ہے جسے وفاقی یا ریاستی حکومتیں کسی بھی وقت اپنی مدد کے لیے طلب کرسکتی ہیں۔
امریکہ کی ہر ریاست کے اپنے نیشنل گارڈز ہیں اور ریاستوں کے گورنر عموماً اپنے گارڈز کو قدرتی آفات اور کسی ہنگامہ آرائی یا پرتشدد احتجاج کی صورت میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کرتے ہیں۔
امریکی آئین وفاقی حکومت کا اختیار دیتا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ، پرتشدد احتجاج پر قابو پانے یا کسی جارحیت کے خلاف ریاستوں سے نیشنل گارڈز طلب کرسکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے جس وفاقی قانون کے تحت نیشنل گارڈز طلب کیے ہیں اس کے تحت ان اہلکاروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول نیشنل گارڈز بھیجنے والے ریاستوں کے گورنروں کے پاس ہی رہے گا اور البتہ ان کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔
صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دنوں سے ہی امریکہ میں تارکینِ وطن کی قانونی اور غیر قانونی آمد کو امریکہ کے بیشتر مسائل کی جڑ قرار دیتے رہے ہیں اور انہوں نے صدر بننے کے بعد سے تارکینِ وطن کی آمد روکنےکے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کا موقف ہے کہ میکسیکو سے آنے والے غیر قانونی تارکینِ وطن ایک بڑا مسئلہ ہیں جن کی آمد روکنے کے لیے صدر ٹرمپ نے سرحد کے باقی ماندہ حصوں پر دیوار تعمیر کرنے کے لیے کانگریس سے فنڈز مانگے ہوئے ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب تک دیوار کی تعمیر مکمل نہیں ہوجاتی سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی کے ذریعے غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد کو روکا جائے گا۔
امریکی سرحدوں کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ میکسیکو سے غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد میں رواں سال پھر اضافہ ہوا ہے اور صرف مارچ کے مہینے میں سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 50 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کی آمد اور منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر اس سے قبل بھی نیشنل گارڈز تعینات کیے جاتے رہے ہیں۔
سابق امریکی صدور جارج ڈبلیو بش نے 2006ء اور صدر براک اوباما نے 2010ء میں سرحد پر نیشنل گارڈز تعینات کیے تھے۔