رسائی کے لنکس

صدر اوباما کی پالیسیوں پر ریپبلیکنز کی تنقید


صدر اوباما کی پالیسیوں پر ریپبلیکنز کی تنقید
صدر اوباما کی پالیسیوں پر ریپبلیکنز کی تنقید

امریکہ کی صدارتی سیاست میں بعض ریپبلیکنز نے جو اگلے سال صدر براک اوباما کو چیلنج کرنا چاہیں گے، خارجہ پالیسی سمیت صدر کی بعض پالیسیوں پر سخت الفاظ میں تنقید شروع کر دی ہے۔

اگرچہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم کے مختلف مرحلے شروع ہونے میں ابھی کافی وقت باقی ہے، پھر بھی کئی ریپبلیکنز نے وہائٹ ہاؤس کا انتخاب لڑنے کے لیے پہلے ہی کچھ قدم اٹھا لیے ہیں اور آنے والے ہفتوں میں چند اور ریپبلیکنز بھی ایسا ہی کرنے والے ہیں۔

ریاست پینسلوینیا کے سابق سینیٹر رِک سانٹورم نے ابتدائی اندازے لگانے کے لیے انتخابی مہم کی ایک کمیٹی قائم کر دی ہے اور وہ Iowa اور نیو ہیمپشائر جیسی ان ریاستوں کا سفر کر رہے ہیں جہاں سے صدارتی مقابلوں کے لیے نامزدگی کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس ہفتے واشنگٹن میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے صدر اوباما کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کی۔ لیبیا، ایران اور وینیزویلا کے بارے میں اوباما انتظامیہ نے جو موقف اختیار کیا ہے انھوں نے اس کو خاص طور سے تنقید کا نشانہ بنایا۔

بہت سے قدامت پسندوں کی طرح، سانٹورم اس نظریے کو فروغ دیتے ہیں جسے American Exceptionalism کہتےہیں یعنی یہ عقیدہ کہ امریکہ بعض غیر معمولی خصوصیات والا ملک ہے اور اسے دنیا کے معاملات میں ایک منفرد قائدانہ رول ادا کرنا چاہیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘ایسا صدر جو امریکہ کی عظمت اور امریکی تجربے کی انفرادیت کو نہیں سمجھتا، وہ پُر اعتماد طریقے سے اس کے مفادات کو کیسے آگے بڑھا سکتا ہے ۔ اگر وہ قیادت کرنا نہیں چاہتا یا قیادت کر نہیں سکتا، تو دنیا بھر میں کون اسے لیڈر تسلیم کرے گا؟’’

کانگریس مین رون پال
کانگریس مین رون پال

ایک اور ریپبلیکن جو صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کی جانب بڑھ رہے ہیں، ریاست ٹیکساس کے کانگریس مین رون پال ہیں۔ انھوں نے چار سال قبل ریپبلیکن پرائمریز میں حصہ لیا تھا اور 1988ء کے انتخاب میں Libertarian Party کے امیدوار تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انھوں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کی توجہ وفاقی حکومت کا سائز کم کرنے اور امریکیوں کی زندگی میں حکومت کا عمل دخل کم کرنے پر مرکوز ہوگی۔ پال عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکہ کے ملوث ہونے کے مخالف ہیں اور اس معاملے میں ان کا ریپبلیکنز سے اختلاف ہے۔

سانٹورم اور پال کے علاوہ، دوسرے امید وار جو جلد ہی وہائٹ ہاؤس کے بارے میں اپنے ارادوں کا اعلان کر دیں گے، ان میں ریاست میسو چوسٹس کے سابق گورنر مِٹ رومنے، منی سوٹا کے سابق گورنر ٹم پالینٹی اور منی سوٹا کی خاتون رکن ِ کانگریسMichele Bachmann شامل ہیں۔

دوسری طرف ، ریاست مسی سپی کے گورنر Haley Barbour بھی انتخابی دوڑ میں حصہ لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے، لیکن حال ہی میں انھوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔

بہت سے امیدوار جو ابھی پر تول رہے ہیں، ان ریاستوں کے دورے کرتے رہے ہیں جہاں سے اگلی فروری میں صدارت کے لیے نامزدگی کے عمل کا آغاز ہو گا۔

ایسو سی ایٹڈ پریس کے نامہ نگار مائیک گلوور نے ریاست Iowa میں کئی صدارتی کاکسوں کو کور کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ 2012 ء میں انتخاب لڑنا چاہتے ہیں، انکے لیے وقت تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو پہلے ہی سے مشہور ہیں، جیسے Sarah Palin، دوسرے لوگوں کے لیے آخری وقت میں اس دوڑ میں شامل ہونا مشکل ہو گا۔ ریاست الاسکا کی سابق گورنر نے اب تک ریپبلیکن ریس میں شامل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں لی ہے۔ لیکن ایک اور مشہور شخصیت ، نیو یارک کے بزنس مین، ڈونلڈ ٹرمپ کا معاملہ مختلف ہے۔

ٹرمپ گذشتہ ہفتے نیو ہیمپشائر گئے تھے اور رائے عامہ کے کئی جائزوں میں ان کی پوزیشن بہت اچھی تھی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا صدر اوباما واقعی امریکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ صدر نے اس ہفتے اپنی پیدائش کا اصل سرٹیفیکٹ جاری کر دیا۔ ان کی کوشش تھی کہ یہ بحث اب ختم ہو جائے۔

انتخابی مہم میں پہلے سے گرمی آنے کے باوجود، بعض حالیہ جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلیکنز وہائٹ ہاؤس کے امیدواروں کی مختصر لیکن روز افزوں فہرست کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہیں ہیں۔ سیاسی ماہر مائیک گلوور کہتے ہیں کہ عوامی سطح پر ریپبلیکنز کسی ایسے امید وار کی تلاش میں ہیں جو اگلے سال صدر اوباما کو شکست دے سکے، لیکن بہت سوں کا خیال ہے کہ امیدواروں کی موجودہ کھیپ میں کوئی بھی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ان کے مطابق ‘‘بہت سے ریپبلیکنز کے خیال میں عام انتخاب میں براک اوباما کو شکست دینا مشکل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریپبلیکنز کسی ایسے امیدوار کی آرزو کر رہے ہیں جس میں اتنی کشش ہو، جس کے پاس مالی وسائل ہوں اور جس کا نام اتنا مشہور ہو کہ وہ براک اوباما کےمقابلے میں واقعی انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایسی خصوصیات والے امید وار ہو سکتے ہیں’’۔

رائے عامہ کے جائزوں سےظاہر ہوتا ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں ریپبلیکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے کوئی نام ابھر کا سامنے نہیں آیا ہے۔ حالیہ جائزوں کے مطابق ڈونلڈ، مِٹ رومنے، ٹرمپ اور ریاست Arkansas کے سابق گورنر Mike Huckabee کافی مقبول ہیں اور ان کے بعد Palin اور امریکی ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر Newt Gingrich کا نمبر ہے ۔ Palin کی طرح Huckabee نے بھی اب تک اس دوڑ میں شامل ہونے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔

XS
SM
MD
LG