امریکی فوج کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ شمالی عراق میں واقع ایک فوجی مرکز پر داغے گئے گولے میں کیمیائی مواد ہو سکتا ہے،جس کے بارے میں شبہ ہے کہ اسے داعش نے فائر کیا تھا۔
عہدیدار نے پینٹاگان میں صحافیوں کو بتایا کہ منگل کو قیارہ کے فضائی مرکز پر ہونے والے حملے میں کوئی زخمی تو نہیں ہوا لیکن حملے کے وقت سینکڑوں امریکی فوجی یہاں موجود تھے۔
ان کے بقول یہ راکٹ اڈے کی حدود میں گرا لیکن اس سے کسی بھی طرح کا نقصان یا معمولات متاثر نہیں ہوئے۔
مغربی قیارہ کا یہ مرکز عراقی فورسز کی طرف سے داعش کے زیر تسلط شمالی شہر موصل پر حملے کی تیاریوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ اڈے پر گرنے والے راکٹ یا گولے کی باقیات میں سے کالے رنگ کا سیال ملا جس کے دو مختلف تجزیے کیے گئے جن میں ایک میں یہ اشارے ملے کہ یہ کوئی کیمیائی عنصر ہو سکتا ہے لیکن دوسرے میں اس بابت کوئی شواہد نہیں ملے۔
ان کے بقول تیسرے اور مزید تجزیے کے لیے ان اجزا کو لیبارٹری بھجوایا دیا گیا ہے۔
گولے کے ٹکڑوں کو جائزہ لینے والے فوجیوں کو بعد ازاں حفاظتی اقدام کے طور پر زہریلے مواد سے پاک کرنے کے عمل سے گزارا گیا۔ ان فوجیوں میں کسی بھی طرح خطرے کی کوئی علامات ظاہر ہیں ہوئی ہیں۔
امریکی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ موجودہ سال میں ایسے متعدد واقعات ہو چکے ہیں کہ جن میں داعش نے کرد، عراقی اور شامی فورسز کے خلاف کیمیائی مواد استعمال کیا اور ان کے بقول یہ امریکی فوجیوں کے اڈے میں گرنے والی پیلی کوئی مشکوک چیز ہے۔
امریکی فورسز نے گزشتہ ہفتے ہی موصل کے قریب ایک تنصیب کو تباہ کیا تھا جس کے بارے میں شبہ تھا کہ اس جگہ کو کیمیائی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کی جاتا تھا