حالیہ کچھ عرصے کے دوران پاک امریکہ تعلقات میں بڑھتی ہوئی سرد مہری نےکئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔ کئی تجزیہ کار ان پہلوؤں پر غور کررہے ہیں کہ آیا ان دونوں ممالک کےعشروں پر محیط تعلقات اپنی کم ترین سطح کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ اور کیا ان کے درمیان موجود سٹرٹیجک پارٹنرشپ ختم ہورہی ہے؟ پاک افغان خطے میں امریکہ اور پاکستان کے مفادات کس حد تک مختلف یا مشترک ہیںٕ اور ان کی بدلتی ہوئی نوعیت پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کو کس طرح متاثر کر سکتی ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں امریکہ پاکستان پر کبھی سختی ، کبھی نرمی اور کبھی فوجی امداد سے مشروط کر کے ان عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئےاصرار کرتا رہا ہے، جو امریکہ کے مطابق افغانستان میں نیٹو افواج پر حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ شاید آئندہ چند سال میں افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گااور یہی بات واشنگٹن کے لئے تشویش کا باعث بن رہی ہے ۔ دوسری طرف پاکستان میں ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے اپنے قومی مفادات پر سمجھوتہ نہ کرنے کی بات بار بار دوہرائی جا رہی ہے ۔ سابق امریکی سفارتکار ٹریسیٹا شیفرکا کہناہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں موجودہ تناؤ کی وجہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ملکوں کے مفادات کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ افغانستان میں امریکی پالیسی کا ایک مقصد یہ ہے کہ جب امریکہ وہاں سے افواج نکالے تو ایک ایسا مناسب نظام قائم ہو، جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور القاعدہ کا اثر ورسوخ نہ ہو۔ اور امریکہ کا خیال ہے کہ اگر پاکستان رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو ان مقاصد کا حصول ممکن نہیں ۔ پاکستان کے مقاصد امریکہ سے ٕمختلف ہیں اور یہی مسلہ ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں جہاں امریکہ کی دفاعی قیادت نے انتہا پسندگروہوں کے خلاف فوجی حکمت عملی اختیار کی ، وہیں واشنگٹن میں افغانستان کا مسئلہ مصالحتی عمل کے ذریعے حل کرنے کی سوچ بھی موجود رہی۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حالیہ امریکی بیانات کا مقصد حقانی نیٹ ورک اور دوسرے گروہوں پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ مصالحتی عمل میں شرکت پر مجبور ہوں۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اوباما انتظامیہ اور حکومت پاکستان جو سٹرٹیجک پارٹنرشپ قائم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں ، اس کامستقبل اب کیا ہوگا۔ واشنگٹن کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے منسلک مارون وائن بام کہتے ہیں کہ وہ اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔
ان کے مطابق ان حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان اس پارٹنرشپ کی نوعیت میں بڑی تبدیلی آئے گی ۔ اگر یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا تو افغانستان کا منظر نامہ بھی بدل جائے گا۔ کیونکہ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جن مفروضوں کو بنیاد بنا رکھا تھا ان کا دارومدار پاکستان کاحقانی نیٹ ورک ، کوئٹہ شوریٰ اور ملا عمر کے خلاف کارروائیوں پر تھا۔اگر یہ نہیں ہوتا تو پھر امریکہ کے افغانستان میں مقاصد کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
مگر بیشتر تجزیہ نگار متفق ہیں کہ تعلقات کی نوعیت بے شک بدل جائے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت رہے گی ۔ ماہرین امریکہ اور پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں چین اور پاکستان کے تعلقات کو بھی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔
سینٹر فار سٹرٹیجک اسٹڈی سے وابستہ مائیکل گرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے لئے چین امریکہ کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ ان کے خیال میں پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت اور امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ امریکہ پاکستان کو چھوڑ نہیں سکتا۔اسلام آباد میں بھی سب کو معلوم ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کئے جاسکتے، کیونکہ چین امریکہ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ چین نہ تو امریکہ کی طرح امداد فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی بھارت میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکتا ہے ۔ یہ دونوں کے لئے ہی بڑا چیلنج ہے اور دونوں طرف مایوسی نظر آ رہی ہے۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تعلقات کشیدہ رہنے کی صورت میں پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کے راہنماؤں کو ہلاک کرنے کے لئے امریکی حملوں میں تیزی آئے گی اور امریکی امدادبھی متاثر ہوگی ۔