رسائی کے لنکس

افغانستان میں کامیابی کے لیے پاک بھارت تعلقات کی اہمیت


تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان کے مستقبل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اہم ترین عنصر ثابت ہو سکتے ہیں، اور واشنگٹن نیوکلیئر اسلحہ سے لیس ان دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے، زیادہ موئثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ایسے وقت میں جب واشنگٹن افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کی تیاری کر رہا ہے، پاکستان اور امریکہ اپنے تعلقات ایک بار پھر ٹھوس بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ علاقے میں امن کے لیے زیادہ اہم چیز پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہیں۔

حسن عباس واشنگٹن کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں انٹرنیشنل سکیورٹی کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اگر امریکہ نے کسی مضبوط علاقائی اتفاقِ رائے کے بغیر 2014ء میں سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں، تو اس سے علاقے میں دشواریاں پیدا ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’افغانستان کو ان حالات میں کسی علاقائی یا بین الاقوامی مفاہمت کے بغیر چھوڑنے کا مطلب ہوگا مزید جنگ، مزید تشدد، یا کم از کم مسلسل جاری عدم استحکام۔‘‘

عباس کہتے ہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اشتراکِ عمل ہو۔ لیکن عباس کہتے ہیں کہ اگرچہ حال ہی میں تعلقات میں کچھ بہتری آئی ہے، لیکن دونوں فریق افغانستان میں حالات پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد نے نئی دہلی پر الزام لگایا ہے کہ وہ علاقے میں انٹیلی جنس کی کارروائیاں کر رہا ہے، اور بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ اس نے اپنے علاقے سے مسلح عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔

اٹلانٹک کونسل میں ساؤتھ ایشیا سینٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کے لیے یہ دانشمندی کی بات ہو گی کہ وہ اپنے قوانین میں ایسی تبدیلیاں لائے کہ وہ پاکستان کے اندر ان گروپوں کے خلاف کارروائی کر سکے، لیکن اسلام آباد کے لیے سیاسی طور پر ایسا کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ ان کے مطابق ’’اب تک ان کا قانونی نظام انتہائی کمزور رہا ہے، اور بہت سی سیاسی وجوہ کی بنا پر، ان گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا اور بھی مشکل رہا ہے۔‘‘

لیکن حال ہی میں مختلف باغی گروپوں اور عسکریت پسندوں کے سرگرمیوں کے اثرات پاکستان کے اندرونی حالات پر پڑے ہیں۔ شجاع نواز کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ حکومت ِ پاکستان ملک کے اندرونی حالات پر توجہ دینے پر مجبور ہو جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے امید ہے کہ نہ صرف حکومتِ پاکستان کے اندر اور فوجی حلقوں میں، بلکہ مجموعی طور پر پاکستانی معاشرے میں بھی یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ کہیں زیادہ سنگین معاملہ ہے اور اس سے پاکستان کی فوری سلامتی کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس قسم کی سرگرمیوں کو، حکومت کے علم میں لا کر یا علم میں لائے بغیر، دوسرے ملکوں کو برآمد کرنے کی اجازت دینے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘‘

یونائیٹد اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معید یوسف کہتے ہیں کہ واشنگٹن کے لیے یہ بات زیادہ اہم ہو سکتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ یہ دونوں ملک آپس زیادہ تعاون کریں۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان شراکت داری، انسداد دہشت گردی کے آگے، شاید زیادہ کارگر نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں پاکستان اور امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات میں اس حد تک مطابقت نہیں ہے کہ یہ دونوں ملک جنوبی ایشیا میں ایک دوسرے کے اتحادی بن سکیں۔‘‘

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان برسوں سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے، اور دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون اس وقت بالکل ختم ہو گیا جب نیٹو نے نومبر میں سرحد پار حملہ کیا جس میں پاکستانی فوج کے 24 ارکان ہلاک ہو گئے۔

اگرچہ دونوں ملک مثبت تعلقات کی بحالی کے لیے کام کرتے رہے ہیں، لیکن پاکستان کی پارلیمینٹ نے تعلقات کے دوبارہ آغاز اور افغانستان میں نیٹو کو سپلائی کے راستوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے جو شرائط رکھی ہیں، امریکہ نے ان پر سرد مہری کا اظہار کیا ہے۔

ان شرائط میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی علاقے پر ڈرونز کے حملے بند کیے جائیں، اور پاکستان کے علاقے کو اسلحہ اور گولہ بارود افغانستان بھیجنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ واشنگٹن نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ ان سفارشات کی پابندی کرے گا یا نہیں، لیکن یہ کہا کہ وہ پالیسی کے نکات پر اسلام آباد سے بات چیت کرے گا۔

یوسف اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ امن اور استحکام کا انحصار بھارت اور پاکستان کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’افغانستان اہم ہے، لیکن اس معاملے کا کلیدی عنصر پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ ان دو ملکوں کے ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے جتنا زیادہ کام کرے گا، ہمسایہ افغانستان میں اس کے اتنے ہی اچھے نتائج بر آمد ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG