پاکستان کےسراغ رساں ادارے کی طرف سے کوئٹہ میں القاعدہ کے اہم راہنما یونس الموریطانی کی گرفتاری پر رائے زنی کرتے ہوئے، معروف تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ امریکی اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دہشت گردی کے انسداد کے لیے مل کرکام کرنا ایک مستحسن عمل ہے۔
پیر کو ’وائس آف امریکہ‘ کے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں شرکت کرنے والے دفاعی ، سیاسی اور خارجہ امور کے ماہر تھے: جنرل (ر)عبد القیوم خان، شاہد خان اور پروفیسر حسن عسکری رضوی۔
اسلام آباد سے فوج کے شعبہٴ تعلقاتِ عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں ’دونوں ملکوں کی سلامتی کے استحکام کے لیے مل کر کام کر رہی ہیں‘۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر)عبد القیوم نے کہا کہ اِس پیش رفت سے’ اعتماد سازی میں مدد ملے گی‘، جسے ریمنڈ ڈیوس اور دو مئی کے واقعات کے باعث ’دھچکا لگا تھا‘۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر حکومتِ پاکستان کو یہ پتا چلے کہ القاعدہ کا کوئی دہشت گرد کہیں موجود ہے ’تو عوام کی مدد سے‘ اُسے موت کے گھاٹ اتارا جائے گا، ’کیونکہ، کسی کو بھی دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے‘۔
ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ جب کبھی کوئی دہشت گرد کامیاب ہوجاتا ہے، مثلاً جی ایچ کیو میں داخل ہونے میں، ’تو یہ ہماری ناکامی ہے‘۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ ، ’یہی ناکامی کا معاملہ ڈورینڈ لائن سرحد کے ساتھ ساتھ بھی ہے‘۔
بوسٹن سے تعلق رکھنے والے سرگرم سیاسی کارکن، شاہد خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ پاکستان ’اپنا کیس پیش کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ اور نہ یہ کہ دہشت گردی سے ’چھٹکارا حاصل کرنے میں‘ پاکستان پُر عزم نہیں۔
شاہد خان کے بقول، یہ بات قابل ِتعریف ہے کہ دونوں ممالک کی فوج اور انٹیلی جنس ادارے مل کر کام کریں، ’کیونکہ، دونوں ایک ہی مقصد کے لیے کام کررہے ہیں‘، اور وہ ہے، دہشت گردی کا قلعہ قمع ۔
اُنھوں نے کہا کہ جہاں تک امریکی میڈیا میں پاکستان کے نقطہٴ نظر کم نظر آنے کا تعلق ہے، اُس کی وجہ’ میڈیا منیجمنٹ کا معاملہ ہے‘، اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دہشت گردی کے انسداد میں پاکستان پُر عزم نہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا تھا کہ یہ خبر کہ دونوں ملکوں کے انٹیلی جنس اداروں نےمل کر کام کیا، اِس سے انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ’تھوڑا اعتماد بڑھا ہوگا‘۔ اُن کے بقول، اِس مشترکہ مشق کے نتیجے میں باہمی تعلقات کا ماحول بہتری کی طرف فروغ پائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ جب تک امریکی ایجنیوں کی مدد حاصل نہ ہو یا اِس قسم کے لوگوں کو پکڑنے کےلیےپاکستان پر دباؤ نہ ہو، یہ خطرناک دہشت گرد گرفتار نہیں ہوپاتے۔ اُن کے الفاظ میں :’اگر پاکستان اِن عناصر کو خطرہ سمجھتا ہے تو اُسے امریکہ کا انتظار نہیں کرنا چاہیئے، اپنے مفاد کے حساب سے اُن کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیئے۔‘
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: