ریپبلیکنز جنہیں بڑی بے چینی سے ایوانِ نمائندگان میں اپنی اکثریت کا انتظار ہے، کانگریس میں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس ایجنڈے میں ٹیکسوں میں کمی اور سرکاری اخراجات کم کرنا سر فہرست ہے ۔توقع ہے کہ ریپبلیکن لیڈر جان بائنر ایوانِ نمائندگان کے نئے اسپیکر ہوں گے ۔ بدھ کے روز انھوں نے رپورٹروں سے کہا ”ہمارا کہنا ہے کہ نئے وفاقی ملازمین کی بھرتی پر پابندی لگائی جائے، بلکہ ہمیں تنخواہوں کو منجمد کر دینا چاہیئے۔“
گذشتہ ہفتے ایشیا کے دس روزہ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے، صدر اوباما نے کہا کہ انتخاب کے نتائج سے انہیں جو پیغام ملا ہے وہ یہ ہے کہ ووٹرز چاہتے ہیں کہ جنوری میں جب نئی کانگریس اپنی نشستیں سنبھال لے تو وہائٹ ہاوس اور کانگریس ملک کی معیشت اور روزگار کے مواقع پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔انھوں نے کہا کہ امریکہ کے لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ہم خاموش کھڑے رہیں اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہم تعطل کا شکار ہو جائیں۔ امریکی عوام چاہتے ہیں کہ لوگو ں نے ہمیں جس کام کے لیئے منتخب کیا ہے، ہم وہ جاری رکھیں۔
ریپبلیکنز نے الیکشن نتائج کے جو معنی اخذ کیئے ہیں وہ اس سے مختلف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم میں انھوں نے جو ترجیحات مقرر کی تھیں، خاص طور سے حکومت کا سائز کم کرنے کے بارے میں، ووٹرز ان پر عمل چاہتے ہیں۔
سینیٹ کے ریپبلیکن لیڈر مچ میک کونل نے کہا ہے کہ ”ایسا نہیں ہے کہ ووٹرز اچانک ریپبلیکنز کے عشق میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ ہم یہ بات سمجھتے ہیں۔ انھوں نے ڈیموکریٹس سے ناتا توڑ لیا ہے ۔ انھوں نے زیادہ ریپبلیکنز کو واشنگٹن بھیجنے کے لیئے ووٹ ضرور دیا ہے ، لیکن انھوں نے انہیں واضح ہدایات بھی دی ہیں۔“
انڈیپنڈنٹ وومنز فورم کی میشیل برنارڈ کہتی ہیں کہ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس دونوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا ۔ اگلے دو برسوں میں انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ وہ واقعی کچھ کریں گے جس سے خسارہ کم ہو اور نجی شعبے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو ان ووٹرز نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ ان نمائندوں کو بھی دو برسوں میں نکال باہر کریں گے۔
لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ دونوں پارٹیاں کس حد تک مصالحت کے لیے تیار ہوں گی۔ بیشتر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابتدا ہی میں ریپبلیکنز نئی کانگریس میں اپنی بات منوانے کی کوشش کریں گے۔ وہ سرکاری اخراجات کم کرنے اور صدر کے علاج معالجے کے قانون کو منسوخ کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے جو کانگریس میں صر ف ڈیموکریٹس کی حمایت سے منظور ہوا تھا۔
صدر اوباما کو جن سیاسی حالات کا سامنا ہے، وہ کم و بیش ایسے ہی ہیں جو 1994ء کے وسط مدتی انتخاب کے بعد پیش آئے تھے، جب ریپبلیکنز نے ایوان ِ نمائندگان اور سینیٹ دونوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ مسٹر کلنٹن نے بعض معاملات میں ریپبلیکنز کا مقابلہ کیا جب کہ بعض شعبوں میں ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ اس حکمت عملی کی بدولت وہ 1996ء کا انتخاب جیت گئے ۔
بعض ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ وہی حکمت عملی پھر اختیار کی جائے ۔ ان میں ریاست ٹیکسس کے ایوان نمائندگان کے سابق رکن مارٹن فراسٹ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”سوال یہ ہے کہ صدر اوباما جمی کارٹر ہوں گے یا بل کلنٹن؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سوال ابھی جواب طلب ہے۔ میرے خیال میں ڈیموکریٹک لیڈروں کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ وہ جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ڈیموکریٹک لیڈروں کو اور صدر کو پوری کوشش کرنی ہوگی کہ وہ دونوں پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں کیوں عوام یہ نہیں چاہتے کہ حالات تعطل کا شکار ہو جائیں۔ “
صدر اور کانگریس کے ریپبلیکن ارکان کی نظریں 2012ء کے اگلے صدارتی انتخاب پر بھی لگی ہوں گی ، جس میں مسٹر اوباما دوسری بار صدارت کے امید وار ہوں گے۔