صدر ٹرمپ نے اپنے وزیرِ دفاع کو کیوں نکالا؟
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیرِ دفاع جیسے اہم ترین عہدے پر فائز مارک ایسپر کو ایک ایسے موقع پر برطرف کردیا ہے جب انہیں انتخابات میں ناکامی کا چیلنج درپیش ہے۔ صدر نے وزیرِ دفاع کو برطرف کرنے کا اعلان بھی ٹوئٹ کے ذریعے کیا۔ مزید جانتے ہیں وائس آف امریکہ کی ارم عباسی سے۔
امریکہ: انتقالِ اقتدار کے ادارے کو بائیڈن کے باضابطہ صدر تسلیم کیے جانے کا انتظار
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم انتقالِ اقتدار کے عمل میں معاونت کرنے والے ادارے نے اب تک غیر حتمی نتائج کے مطابق نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جیت کو تسلیم نہیں کیا جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن میں فراڈ کے الزامات لگاتے ہوئے اپنی شکست ماننے سے انکار کر دیا ہے اور اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی بھی کی ہے۔
لہذا واشنگٹن میں حکومت کی منتقلی کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا۔ انتقالِ اقتدار کے عمل کی ذمہ داری جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن نامی ادارے کو سونپی جاتی ہے اور یہی ایجنسی کسی امیدوار کی کامیابی کو سرکاری طور پر تسلیم کرتی ہے۔
اقتدار کی منتقلی کا عمل تقریباً دو ماہ میں مکمل ہوتا ہے اور 20 جنوری کو نیا امریکی صدر حلف اٹھانے کے ساتھ اپنے چار سالہ دورِ اقتدار کا آغاز کرتا ہے۔
لیکن ابھی تک تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔
امریکی خبررساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور زیادہ تر نیوز ٹی وی چینلوں نے ڈیموکریٹک جماعت سے تعلق رکھنے والے جو بائیڈن کو 2020 کے الیکشن میں ریاست پینسلوینیا سے ووٹوں کی برتری کی بنا پر انتخابات کے چار روز بعد فاتح قرار دیا تھا۔
قومی میڈیا کے مطابق بائیڈن کو 538 میں سے 279 الیکٹورل ووٹ حاصل ہیں۔
امریکی صدارتی انتخاب میں فتح حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو کم ازکم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں میں نتائج کے مطابق جو بائیڈن کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کو اب تک 214 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں جب کہ کچھ ریاستوں کے نتائج ابھی ترتیب دیے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مقرر کی گئی ایمیلی مرفی انتقالِ اقتدار کی ایجنسی کی رہنما ہیں۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بائیڈن کے قانونی طور پر صدر تسلیم ہونے کے بعد ہی انتقالِ اقتدار کا عمل شرو ع ہوگا۔
امریکہ: وفاقی پراسیکیوٹرز کو مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا اختیار
امریکہ کے اٹارنی جنرل ولیم بر نے وفاقی پراسیکیوٹرز کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔ تاہم ولیم بر کے اس اقدام پر محکمۂ انصاف میں انتخابی جرائم کے شعبے کے نگران رچرڈ پِلگر نے عہدہ چھوڑ دیا ہے۔
اٹارنی جنرل ولیم بر نے پیر کو سرکاری وکلا کو ایک میمو جاری کیا ہے جس کی کاپی امریکی ذرائع ابلاغ کو بھی موصول ہوئی ہے۔ تاہم اس میمو میں دھاندلی کے شواہد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل ولیم بر کا اپنی میمو میں کہنا ہے کہ اگر انتخابی بے ضابطگیوں کے واضح اور مستند ثبوت ہوں اور یہ تصدیق ہوتی ہو کہ اس سے انتخابات کا نتیجہ متاثر ہوا ہے تو اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ اگرچہ یہ بات مناسب ہو گی کہ قابل اعتبار الزامات کے حوالے سے بر وقت اور مؤثر انداز میں کارروائی کی جائے۔ تاہم یہ بات بھی اہم ہو گی کہ محکمے کے اہلکار احتیاط اور غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محکمے کے عزم کو برقرار رکھیں۔
محکمۂ انصاف میں انتخابی جرائم کی تحقیقات کے شعبے کے نگران رچرڈ پِلگر نے اپنے ساتھیوں کو ارسال کی گئی ایک ای میل میں کہا ہے کہ وہ اٹارنی جنرل بر کے میمو اور اس کے ممکنہ اثرات پر غور کرتے ہوئے عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم پِلگر محکمہ انصاف میں دیگر ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔
امریکہ میں محکمۂ انصاف روایتی طور پر اس وقت تک ایسی تحقیقات شروع نہیں کرتا جب تک کہ ہر ریاست میں انتخابی عملہ انتخاب کے نتائج کی تصدیق نہیں کر دیتا۔ تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے انتخابی عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔
بائیڈن کو اپنے دورِ صدارت میں کن چیلنجز کا سامنا ہو گا؟
امریکہ میں اس سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جو بائیڈن امریکہ کے نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ تاہم اُن کا انتخاب ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکہ کو کرونا کی عالمگیر وبا، معاشی مسائل اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
قومی اور عالمی معاملات پر امریکی عوام میں تقسیم بھی واضح طور پر عیاں ہے۔ تاہم جو بائیڈن کا کہنا ہے وہ امریکی عوام کو متحد کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے صدر کے لیے عوامی توقعات کے مطابق ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونا آسان عمل نہیں ہو گا۔
سابق نائب صدر اور ڈیلاویئر سے سینیٹر جو بائیڈن یوں تو قومی سیاست میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں تاہم انتخابات سے قبل کیے گئے اُن کے وعدے جن میں صحتِ عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں سہولیات، کم سے کم اُجرت میں اضافہ، روزگار کے نئے مواقع اور غریب طبقے کی مالی اعانت جیسے وعدوں کے بعد عوام نے اُن سے اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
لیکن اُن کے لیے فوری نوعیت کا اہم مسئلہ کرونا وبا سے نمٹنا ہو گا جس کے لیے اُنہوں نے 20 جنوری کو اپنی حلف برداری سے قبل ہی کام شروع کر دیا ہے۔
جو بائیڈن نے امریکہ کے طبی ماہرین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو وبا سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی بنائے گی۔