اخبار کینسس سٹار ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان او ر افغانستان کے دشوار گزار سرحدی علاقے میں حالیہ نیٹو فضائی حملے میں جو کچھ ہوا اس کی بھر پور تفتیش ہونی چاہئے ۔ اخبار کے بقول ایک مشترکہ امریکی افغان گشتی دستے پر طالبان کی طرف سے مارٹروں اور چھوٹے ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا ، اور ایسا لگ رہا ہے کہ اس نے غلطی سے پاکستان کی سرحدی فوجی چوکی کو باغیوں کا دستہ سمجھا اور اس نے فضائی امداد کے لئے کہا ۔ ۔ اور یہ فضائی حملہ رات کے وقت کیا گیا جب امریکی افغان دستے کو پاکستانی فوج یہ اطلاع دے چکی تھی کہ اس کے اس علاقے میں کوئی فوجی نہیں ہیں۔ حملے میں دو درجن پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے ۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی عہدہ داروں کو اس واقعے کی بھر پور تحقیقات کرانی چاہئے ۔ تاکہ شواہد سے ثابت ہو کہ قصُور کس کا ہے ۔ انہیں وثوق کے ساتھ اسلام آباد کو یہ بھی جتا دینا چاہئے ۔ کہ اس کے پاس جو چارہء کار ہیں وہ محدود ہیں۔ اول یہ کہ اگر اس نے واشنگٹن کے ساتھ قطع تعلق کر لیا ۔ تو خطے میں اس کا خال ہی کوئی دوست رہ جائے گا۔ سوائے چین کے ، جو اخبار کے خیال میں ویسے بھی پاکستان کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا ۔ اخبار کہتا ہے کہ قطع تعلق کے نتیجے میں پاکستان اربوں ڈالر کی امریکی امداد سے محروم ہو جائے گا ۔ او ر امریکہ کو ہندوستان کے اور بھی قریب جانے کی ترغیب ہوگی جب کہ افغانستان کا دروازہ ہندوستان کے لئے اور زیادہ کھل جائے گا۔۔۔
افغانستان کے لئے امریکہ کے ایک سابق سفیر رانلڈ نُیو من نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک طویل مضمون میں بتا یا ہے ،کہ ان کے خیال میں امریکہ کیونکر افغانستان میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ تازہ ترین پاک امریکی محاذآرائی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ کام کرنے اور اُس ملک میں موجود باغیوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کوئئ کاروائی کرنے کےنتیجے میں پیدا ہونے والے تناؤ سے نمٹنے کا ڈھنگ نہ سیکھا تو یہ باربار اٹھ کھڑا ہونے والا مسلہ بن سکتا ہے۔ سفیر کے خیال میں اس وقت افغانستان میں امریکی کاوش کامیاب ہو رہی ہے ۔ لیکن جو وقت ہمیں میسر ہے اس دوران ان پناہ گاہوں سے نمٹے بغیر ناکامی کا زیادہ امکان ہے۔ سفیر کو اعتراف ہے کہ پاکستان کی جانب ٕمحاذآرائی کا وطیرہ اختیار کرنا اور جوہری اسلحے سے لیس اس ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا قطعاً امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسی لئے امریکہ کو تعزیرات عائد کرنے، امداد روکنے یا اُس ملک کو دہشت گرد قرار دینے سے احتراز کرنا چاہئے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا ۔ کہ پاکستان کے جو بہت سے مقاصد ہیں ۔ ان میں سے محض چند ایک ہی ہمارے مقاصد سے متصادم ہیں۔ مضمون نگار آگے چل کر لکھتے ہیں ،کہ پاکستان انتہا پسندی پر قابو پانا چاہتا ہے اور اپنے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں اپنے ہزاروں فوجیوں کی قربانی دے چکا ہے۔ اگرچہ اب تک اسے فیصلہ کن فتح حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ اخبار کی دانست میں شاید پاکستان کے پاس شاید یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ان انتہا پسندوں اور باہر کے شدت پسندوں کو جنہیں اس نے وہاں پناہ لے رکھی ہے شکست دے سکے۔ اور جنہیں وہ پاکستان میں اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کے لئے بعد میں استعمال کرنا چاہتا ہے، لہٰذا محض پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے کام نہیں چلے گا
مضمون نگار کے خیال میں متبادل راستہ یہ ہے کہ شدّت پسندوں کی پناہ گاہوں براہ راست حملے کئے جائیں۔ تاکہ انہیں بھاگنے پر مجبور کیا جائے۔پاکستان کی طرف سے ظاہر ہے غصے کا ردّعمل ہوگا۔ اور افغانستان جانے والا راستہ شاید بند کر دیا جائے گاجو اس وقت ویسے ہی بند کیا گیا ہے اور ٹرکوں کے قافلے رکے پڑے ہیں۔ مضمون نگار کا خیال ہے ، کہ اگر پاکستان نے طیاروں کی پرواز بند کردی تو اس کو نظر انداز کر کے لڑاکا طیاروں کی حفاظت میں پروازیں جاری رکھی جائیں۔ ٕمصنّف کو تسلیم ہے کہ یہ پالیسی نہایت خطرناک ہے ۔ لیکن پھر یہ بھی ہے کہ پاکستانی فوج آسانی سے ماننے والی بھی نہیں۔
کرسچن سائینس مانیٹر وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے بر ما کے دورے پر ایک تبصرے میں کہتا ہے ۔کہ یہ کسی اعلیٰ درجے کے امریکی عہدہدار کا پچاس سال کے طویل عرصے میں پہلا دورہ تھا۔ اور جسے امریکہ کی طرف سے ایک اور کوشش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ جس کا مقصد اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کو روکنا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ برما ان ملکوں میں سے تازہ ترین ہے ۔ جنہیں بیجنگ کی تجارتی اور فوجی طاقت کا ادراک ہونے لگا ہے۔ اس کے لیڈروں نے حال ہی میں ایک عظیم بند کی تعمیر منسوخ کردی۔ جس کے لئے چین روپیہ فراہم کر رہا تھا۔ ملک نے جمہوریت کی جانب بھی کچھ اصلاحات بھی نافذ کی ہیں۔ اور 2014 میں اسے آسیان ملکوں کی قیادت کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ جو عرصے سے چین کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوبامہ کو امید ہے کہ وہ برما کو ۔ ویت نام۔ ہندوستان، آسٹریلیا ،اور فلیپینز جیسے ملکوں کی صف میں لا کھڑا کریں گے۔ جنہوں نے حال ہی میں امریکہ کے ساتھ زیادہ مضبوط تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
لیکن برما بھی طاقت کے بارے میں امریکی نظریات کا امتحان لےگا۔ بر ما کے خلاف امریکی قیادت میں جو اقتصادی تعزیرات نافذ ہیں ، ان کی وجہ سے نہ تو ملک پر فوج کی آہنی گرفت ڈھیلی ہوئی ہے اور نا ہی اقلیتی قبائیل کی کوئی مدد ہوئی ہے
امریکہ کی نظریں ہمیشہ نوبیل امن انعام یافتہ لیڈت آنگ سین سُوچی پر رہی ہیں جو برما میں حقوق انسانی اور جمہوریت کی علمبردار رہی ہیں اور جن کی پارٹی نے حکومت پرفوج کےتصرف کے باوجود انتخابات میں حصّہ لینے کا جرءاتمندانہ فیصلہ کیا ہے